حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اورشاعری کے جو نمونے منظر عام پرآئے وہ اپنی نظیر آپ ہیں ، شاعرانہ محاسن پر تو حیرت ہوتی ہے کہ تمام تر مصروفیات اور علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ اتنی اچھی شاعری کیسے وجود میں آگئی جس کی داد و تحسین صاحب طرز ادیب و نقاد عبدالماجد دریابادی کے قلم حقیقت رقم سے بھی نکلی۔ جی چاہتا ہے کہ مولانا دریابادی کے الفاظ آپ کو اسی موقع پر سنادئیے جائیں تو لیجئے سماعت فرمائیے۔ حضر ت محترم ، السلام علیکم ’’آنکھ کی کہانی آں محترم کا عطیہ، یہاں آتے ہی پڑھ ڈالی، سبحان اللہ، ماشاء اللہ مجھے علم نہ تھا کہ آپ کو شعر و نظم پر بھی اس درجہ قدرت حاصل ہے، ذلک فضل اللہ، کیا کیا قافئے نکالے ہیں ، کیسے کیسے مضمون باندھے ہیں کہ پیشہ ور شاعروں کے بھی چھکے چھوٹ جائیں ، نہ کہیں جھول، نہ اتنی طویل نظم میں کہیں آورد، بس آمد ہی آمد، خوش دماغ تو بہ حیثیت ایک سچے قاسم زادہ کے آپ تھے ہی، اب معلوم ہوا کہ ماشاء اللہ خوش فکر بھی اسی درجہ میں ہیں ۔ ماشاء اللہ۔ دعا گو و دعا جو عبدالماجد ۱۵؍سمبر ۱۹۶۴ء اس داد و تحسین کے بعد کسی اور داد کی ضرورت بھی کیارہ جاتی ہے، لیکن انسانی فطرت اور اختلاف ذوق و فکر کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا، ہر صاحب فکر و فن کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے زاویہ فکر و نظر کے مطابق کلام کا جائزہ لے، چنانچہ بہت سے ارباب فن نے حضرت حکیم الاسلامؒ کی شعرو شاعری پر بہترین تبصرے کئے اور قادرالکلامی کی بھرپور داد دی۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی تمام نظموں میں ’’اسلام کی روانی‘‘ اور ’’آنکھ کی کہانی‘‘ کو امتیاز حاصل ہے، اکبر الٰہ آبادی مرحوم کی نظم ’’پانی کی روانی‘‘ کی زمین میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے اسلامی ذہن و فکر کے جلو میں ’’اسلام کی روانی‘‘ میں جو روانیٔ طبع دکھائی ہے وہ ہر زاویہ سے ’’پانی کی روانی‘‘ سے کم نہیں بلکہ’’اسلام کی روانی‘‘کے حُسن کو دو چند کردیا ہے۔ نظم خاصی طویل ہے لیکن زور بیان، روانی و برجستگی اور حقیقت بیانی میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ اس کو قادر الکلامی اور شاعرانہ کمال نہ کہئے تو کیا کہئے؟ چند اشعار آپ بھی سماعت فرمالیں تو ہمنوائی میں ذرا تامل نہ ہوگا۔ لسان العصراکبر الٰہ آبادی مرحوم ان الفاظ میں اس نظم کی داد دے چکے ہیں ۔