حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
اکابر علمائے دیوبند درحقیقت علما ربانیین تھے۔ گفتار و رفتار، نشست و برخاست، عبادات و معاملات اور سیاست و اصلاح میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ہی پیش نظر تھی، اتباع سنت سے سرمو انحراف بھی ان کے تصور سے خارج تھا اس لئے ان کی زبان سے جو موزوں کلام صادر ہوا وہ ان کے عرفان حقیقت کا عکس جمیل ہے، یہی وجہ ہے کہ اکابر علما نے مجال شعر میں قدم رکھا تو اپنی شناخت الگ بنائی ۔ غزلیات و قصائد سے وہ نباہ نہیں کر سکے، حقیقت بیانی ان کا شعا ررہا اور جو کچھ کہا وہ معبود حقیقی کی ذات و صفات میں گم ہو کر کہا، سچ پوچھئے تو عشق و محبت کا مرکز ذات باری ہی ہے، تمام محاسن اور اوصاف حمیدہ اسی میں ہیں تو لو لگائیے تو اس سے لگائیے، گن گائیے تو اس کے گائیے، محبت کیجئے تو اس سے کیجئے، ان علماء دیوبند نے یہی کیا اور اسلامی فطرت کے مطابق اسی محبوب حقیقی کی بارگاہ میں عشق و محبت کے ترانے پیش کئے۔ ذات وحدت کے بعد ذات نبوت سے عقیدت و محبت کا اظہار ان کا سرمایۂ حیات تھا۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے تو متعدد مجموعہائے کلام ہیں ۔ مثنویوں میں عشق و محبت اور فریاد کا وہ رنگ ہے جو ایک صاحب دل کے کلام میں ہونا چاہئے۔ یہ رنگ عام شاعروں کے کلام میں نظر نہیں آتا۔ یہ صاحبان دل ہی ہیں جو عشق و محبت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے محبت کے آبدار موتی نکالتے ہیں اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دئے ہیں ، مرشد کا اثر مسترشد پر بھی صا ف دکھائی دیتا ہے، جذب و مستی نے انگڑائی لی تو قلبی و ارادت الفاظ کا جامہ پہن کر منظر عام پر آگئے، یہ علماء دیوبند بھی کیا گذرے ہیں کہ عربی و فارسی اور اردو پر یکساں قدرت تھی، کبھی عربی کو اظہار جذبات کا ذریعہ بنایا تو کبھی فارسی کو اور کبھی اردو کو۔ حضرت نانوتویؒ نے فارسی اور اردو میں جو کچھ کہا ہے وہ متعدد کتابوں میں نظر آجاتا ہے۔ کوئی مستقل مجموعۂ کلام نہیں ہے اور اگر کبھی شائع بھی ہوا ہو تو راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت نانوتویؒ کا شجرۂ چشتیہ فارسی زبان کے شاہکار شجرات میں منفرد ہے۔ روحانی اور برجستگی ایک ایک شعر کا حسن ہے اور سلاست ایسی کہ قربان جائیے، بطور تبرک شجرہ کے دو چار اشعار آپ بھی سماعت فرما لیجئے۔ الٰہی غرق دریائے گناہم تو میدانی و خود ہستی گواہم گناہ بے عدد را بار ستم ہزاراں بار توبہ ہا شکستم حجاب مقصدم عصیان من شد گناہم موجب حرمان من شد بآں رحمت کہ وقف عام کردی جہاں را دعوت اسلام کردی