حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دیدے، اسی نقطہ نگاہ کی وجہ سے ہرکمیونسٹ ہندوستان میں خدا بیزار اور مذہب دشمن رہا اور خود ان کی اپنی زندگی الحاد کا شکار تھی لیکن ہندوستان جیسے مذہبی ملک میں اپنے اس عقیدہ کابرملا اظہار نہیں کرسکتے تھے اور وہ محتاط تھے لیکن اپنی تحریروں میں ڈھکے چھپے لفظوں میں بیان کرتے رہتے تھے، چوں کہ ہندوستانی معاشرہ اتنا مربوط اور مستحکم تھا کہ کسی خاندان کی کسی جوان کو ہندوستان کے مذہبی ماحول میں دین سے بیزاری کے برملا اظہار کی ہمت نہیں تھی اس لئے وہ اپنی بدعقیدگی اور الحاد کو اپنے تک ہی محدود رکھتے تھے، زیادہ سے زیادہ اپنے بے تکلف دوستوں میں اپنا ہم نوا بنانے کے لئے اس کا اظہار کرتے رہتے تھے اور ملک میں کھلم کھلا مذہب بیزاری کی تحریک نہیں چلائی گئی لیکن ذہنوں کو تیار ضرور کیا جاتا رہا اور نوجوان طبقہ اس سے متاثر بھی ہوتا رہا، تاکہ جب وقت آجائے کہ اشتراکی نظام بروئے کار لایا جائے تو آسانی کے ساتھ سمرقند و بخارا اور ایشیاء کو چک کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی طرح یک بیک مذہب کے خلاف طبل جنگ بجا دیا جائے اور مذہب کو دیس نکالا دیا جائے۔ روسی انقلاب کی تاریخ ہمارے دعویٰ کی شاہد عادل ہے۔ آزادی سے پہلے ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۷ء تک یہ تحریک دہریت بڑے شباب پر تھی اسی زمانہ میں کچھ لوگوں نے خدا کے وجود سے انکار پر مشتمل کچھ سوالات حضرت حکیم الاسلامؒ کو لکھ کر بھیجے تھے جس میں ان سے ایسے جواب کی فرمائش کی گئی تھی جو عقل و روایت کی روشنی میں دیا گیا ہو اور جواب اس کسوٹی پر پورا اترے، قرآن و حدیث سے کسی مسئلہ کو ثابت کرنا ان کے نزدیک کوئی وزن نہیں رکھتا تھا، ان کو یقین تھا کہ کارل مارکس نے جو تھیسس دنیا کے سامنے پیش کی ہے وہ فلسفیانہ ناقابل شکت دلائل سے مسلح ہے، بوسیدہ روایتوں ، فرسودہ عقائد اور دقیانوسی نظریہ رکھنے والے مولویوں میں کہاں سے یہ علم پیدا ہوگا کہ اس کا کوئی عقلی جواب دے سکیں اس لئے سوال نامہ میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ جو جواب دیا جائے وہ عقل و خرد کی میزان پر پورا اترے، محض قرآن و حدیث کا حوالہ دینا کافی نہیں ہے کیوں کہ ان کے نزدیک ان دونوں کی کوئی قدر وقیمت اور کوئی حیثیت ہی نہیں تھی وہ سمجھتے تھے کہ پہلے ذہین لوگوں نے اپنے دور میں انقلاب برپا کرنے کے لئے یہ کتابیں لکھی تھیں اور اس کی وجہ سے وہ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن ان کا دور اب ختم ہوچکا ہے اور نئے انقلاب کے لئے ایک نئے نظریہ حیات کی ضرورت ہے اور وہ کمیونزم ہے۔ وہ سوالات جو حضرتؒ کو بھیجے گئے تھے اور ان کے رسالہ ’’مذہب کے آنسو‘‘ میں بھی شائع ہوئے تھے مختصر طور پر یہ تھے کہ اگر اللہ رحیم و کریم ہے تو اس کے رحم و کرم کا یہ تقاضہ تو نہیں کہ انسان ہمہ وقت درد و غم اور آفات و مصائب میں گرفتار رہے، اگر انسان اپنے اعمال کی وجہ سے گرفتار بلا ہے تو آسمانی بلائیں پیہم اور ہر