حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے صحیح اور حقیقی معنی و مفہوم کو سمجھنا ممکن ہی نہیں اور اس کی ناقابل تردید دلیلیں بھی دیں اور کہا کہ خدا کی ذات جس طرح لامحدود ہے اسی طرح اس کی صفاتِ کمال بھی لامحدود ہیں اور انسان اس کا ادراک بغیر تحدیدات، تعینات اور تشخیصات کے نہیں کر سکتا اور اس کے لئے کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ وہ محدود رہتے ہوئے لامحدود ذات و صفات تک رسائی پائے یا اس کا ادراک و معرفت کرلے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان ایک برزخ اور درمیانی طبقہ پیدا کیا جو ذات حق سے قریب تر اور تعینات کے لحاظ سے بندوں میں شامل اور کمال بشریت کا نمونہ رہتا ہے، انہیں کو ہم انبیاء رسل کہتے ہیں ، کمالاتِ ربانی کے نمونے نبی کی ذات قدسی صفات میں ظہور کرتے ہیں تو عام بندوں کے لئے سہل ہوجاتا ہے کہ اس نبی سے وابستہ ہو کر حسب استعداد خدا تک رسائی حاصل کرلیں ۔ حق تعالیٰ کی صفاتِ کمالیہ میں ایک صفت صفتِ علم یا صفتِ کلام بھی ہے۔ یہ علوم خداوندی کی ترجمانی اور تعبیر کرنے والی ہے اور صفتِ علم کا مظہر اتم قرآن حکیم ہے جو اپنی اصولیت، و کلیت، کمالِ جامعیت اور شئون الٰہیہ سے بھرپو ر ہونے کی وجہ سے جن سے یہ کلام وجود میں آیا ہے ذاتِ خداوندی کی طرح لامحدود الحقائق، لامحدود المعارف اور لامحدود المطالب ہے جو ایک نوع نہیں بلکہ ماضی و مستقبل اور حال کی ہزارہا انواع علوم پر حاوی اور مشتمل ہے، اب ایسے کلام کا سمجھنا بنا خدا کی رہنمائی کے ممکن نہ تھا اور اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے۔ ایسا فردِ کلام اور اس کی تفہیم کا واسطہ بنے جس کا متکلم تو ہم جیسوں میں سے ہو لیکن اپنے قلبِ ثانی اور دماغِ عالی جہت سے عرشیوں میں سے ہو جس طرح ذاتِ خداوندی تک بلا رسول کے واسطے کے ہماری رسائی ناممکن تھی اسی طرح کلامِ خداوندی تک بلا کامِ رسول ہماری فہم کی رسائی ناممکن تھی، ہم اسی کلامِ رسول کو احادیث کہتے ہیں گویا حدیث پر عمل عین قرآن پر عمل اور منشاء خداوندی پر عمل ہے اور اس کے سوااور کچھ نہیں ۔ آپ نے اپنے دعویٰ کو اور مدلل کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں منجانب اللہ ہیں ، حضورB اس کے ناقل ہیں ، نزول الفاظ، جمع الفاظ، اقرار الفاظ سب کچھ ذاتِ باری کی طرف سے ہوا اور بیانِ معانی، شرحِ مطالب اور تعیین مراد بھی خدا ہی کی جانب سے ہوئی، ظاہر ہے کہ جب پیغمبر کو بھی معانی و مرادات کے سمجھنے میں بیانِ حق کے تابع رکھا گیا جن پر خود قرآن اترا تو امت کی کیا مجال ہے کہ اس کہ فہم کو مطالب قرآنی پر حکم بنا کر چھوڑ دیا جائے کہ وہ سلسلۂ معانی میں مدعی یا مجتہد بن جائے، قرآن کی آیتوں سے اپنے اسی دعویٰ کو ثابت کرتے ہوئے آپ نے یہ بات واضح کردی کہ احادیث رسول درحقیقت مراداتِ قرآن ہے، کلامِ رسول آیاتِ قرآنی ہی کی تشریح ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں اب اگر کوئی احادیث کو