حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اسمائِ حسنیٰ کو شمار کراکے انہیں اسماء سے ننانوے اصول اخلاق ثابت کئے ہیں اور ننانوے اخلاقی قوانین مستنبط کرکے شمار کرائے ہیں ، یہ بحث اپنی نوعیت کی منفرد بحث ہے اور حکیم الاسلامؒ کے ذہن کی دقیقہ رسی کا ثمرہ ہے، حیرت یہ ہے کہ جب پوری بحث پڑھئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو ہماری زندگی میں جاری و ساری ہیں لیکن آج تک ان الفاظ کی معنوی گہرائی تک ہماری رسائی نہیں ہوئی اور جب حکیم الاسلامؒ کے قلم نے ہماری لاعلمی کے پردے ہٹادئے تو ہماری جانی پہچانی حقیقتیں ہمارے سامنے آگئیں اسی لئے بے ساختہ حضرت والاؒ کے لئے ’’حکیم الاسلام‘‘ کا خطاب ہماری زبانوں سے نکل جاتا ہے جس کے وہ صحیح طور پر مستحق تھے۔ آیاتِ قرآنی سے ننانوے اسمائِ حسنیٰ شمار کرانے کے بعد آپ نے بتایا کہ یہی حق تعالیٰ کے وہ اصول اخلاق، رحم و کرم، حلم و صبر، عفو و درگذر، عظمت، قدرت، قوت، محبت، عدل و انصاف، علیمی و خبیری، وسعت و احاطہ یکتائی، غنا، نورانیت، ہدایت، بزرگی، حفظ و نگہبانی، نفع و ضرر، انعام ، انتقام، سلبِ عطا، ثبات و استقلال، مصدریت، کمالات، تقدس، پاکی، حکومت و ملوکیت، لطافت، ستھرائی، علوّشان، اعزاز، تذلیل وغیرہ وغیرہ ہیں جن کی اصولی تعداد ننانوے تک پہنچتی ہے جنہیں حدیث میں اسمائِ الٰہیہ کے نام سے تعبیر کیا ہے اور قرآن نے اسماء حسنہ کے لقب سے یاد کیا ہے۔ یہی وہ پاکیزہ اخلاقِ خداوندی ہے جنہیں حاصل کرنے کے لئے نبی کریم B نے امت کو حکم تخلقوا باخلاق اللہ سے دیا ہے۔ انہیں اخلاقِ الٰہیہ سے مخلوق کی اخلاقی تکمیل کے لئے نبی کریمB مبعوث ہوئے، آپ نے فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ اسلام کے قوانین اخلاق کو پیش کرکے آپ نے انجیل کے مذکورہ دس احکام کو بچکانہ بات بتایا اور کہا کہ قرآن کے نظام اخلاق کی وسعت کے سامنے یہ چند سطحی باتیں پیش کرکے سورج کو چراغ دکھانا ہے، اس کے باوجود عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام کا کوئی نظام اخلاق نہیں ہے اور اگر معیاری اخلاق ہے تو عیسائیوں کی تحریف شدہ انجیل کی تعلیمات میں ہے، جنوں کا نام خرد رکھ لیا خرد کا جنوں ! روڑکی کے پادری نے دوسرا اعتراض حضرت زینبؓ سے حضورB کے نکاح پر کیا ہے، یہ اعتراض روڑکی کے اس معمولی پادری کے دماغ کی اختراع نہیں ہے بلکہ مشہور مستشرقین کا چبایا ہوا لقمہ ہے، سومویر، درمنجم، واشنٹن ارفنج اور کامنس نے اپنی اپنی کتابوں میں بڑے زور و شور سے لکھا ہے جن کا مدلل جواب علماء مصر نے عربی اور انگریزی میں اتنی تفصیل سے دیا ہے کہ اب مزید اس پر اضافہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ مستشرقین کی غلط فہمی نہیں اور نہ تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ اعتراض کیا ہے بلکہ تنگ نظری، عصبیت، اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کے طور پر کیا گیا ہے، ورنہ معترضین کو خوب معلوم ہے