حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
زیادہ کھری کسوٹی پر کوئی واقعہ پرکھا نہیں گیا۔ اگر کوئی شخص احادیث کے معیار اور اس کی تسلیم کردہ کسوٹی کی صحت پر یقین نہیں کرتا تو آج دنیا کی پوری تاریخ جھوٹ کا پوٹ ہو کر رہ جائے گی کیوں کہ ان کا معیار تحقیق حدیث کے معیار تحقیق کے مقابل انتہائی گھٹیا اور غیر یقینی ہے حالاں کہ ہر شخص تاریخ کی صحت پر یقین کرتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ تاریخ سے کہیں زیادہ سچی کسوٹی پر پرکھی ہوئی احادیث کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ احادیث کی حقیقت کو جانچنے کے لئے فن بیوگرافی کو ایجاد کیا جو اس سے پہلے وجود میں نہیں آیا، چار لاکھ اشخاص کے پوست کنندہ حالات مرتب کرکے لکھے گئے۔ ان کے صدق و کذب کی پوری پوری چھان بین کی گئی جب ان کی صداقت راست بازی کی تحقیق کرلی گئی تو ان کی زبانی سنی ہوئی حدیث کو صحیح قرار دیا گیا ورنہ اس کے منہ پر مار دیا گیا۔ موضوع روایتوں کے وجود سے انکار نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ صحیح اور غلط احادیث میں تمیز نہ کی جاسکے اور قطعیت کے ساتھ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جاسکتا ہے، تضادات، اسرائیلیات، بدمذہبوں اور زندیقیوں کی الحاقی باتیں کم علم والوں کے ذہن میں تذبذب اور تشکیک کا باعث بن سکتی ہیں ، اہل علم جن کی پورے ذخیرۂ حدیث پر مبصرانہ نگاہ ہے وہ کھرے اور کھوٹے کو اس کسوٹی پر پرکھتے تھے جس سے زیادہ قابلِ اعتبار یقینی سچی کسوٹی آج تک دنیا میں وجود میں نہیں آئی۔ فتنہ انکارِ حدیث نے زیادہ پروبال نہیں نکالے اور جلد ہی اپنی موت آپ مرگیا، غالباً حکیم الاسلامؒ نے بھی اسی دو ر میں یہ کتاب تحریر فرمائی ہے اور اپنے بلند علمی معیار سے کلام کیا ہے اور قرآن ہی سے احادیث کے واجب العمل ہونے کو جن جن طریقوں سے ثابت کیا ہے اور احادیث کی ساری قسموں کو آیاتِ قرآنی کی روشنی میں مستنبط کیا ہے اور اس کے درجۂ اعتما دکو متعین کیا ہے حق یہ ہے کہ بڑی دیدہ ریزی سے کام لیا گیا ہے، احادیث کی حجت کو قرآن کی آیات سے جس باریک بینی اور الفاظِ قرآنی کی معنوی وسعت کو نمایاں کرتے ہوئے جس گہرائی سے ثابت کیا ہے حق یہ ہے کہ یہ کام حکیم الاسلامؒ کا ہی نکتہ آفریں دماغ کر سکتا تھا اور اسی نے کیا بھی۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے گفتگو کا آغاز اس دعویٰ سے کیا ہے کہ دین کی دو اصلیں ہیں ۔ قرآن اور سنت، ان کے علاوہ اجماع اور قیاس بھی حجت اور واجب العمل ہیں مگر بذات خود اصل نہیں ہیں بلکہ بالواسطہ ہیں کیوں کہ اجماع اور قیاس وہی معتبر ہے جو قرآن و حدیث کی تصریحات کے مطابق ہوں ۔ اس کے علاوہ کوئی اجماع اور قیاس قابلِ اعتبار اور واجب العمل نہیں ، پھر اس دعویٰ کو متعدد آیاتِ قرآنی سے ثابت کیا ہے اور دلائل کا مفصل ذکر کیا ہے اور مثالوں سے واضح کیا ہے۔