حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
آپ نے بائبل کے جزئی فعل کے مقابلہ میں قرآن کے کلی حکم اور اس کی قانونی وسعت کو سمجھانے کے لئے لاتقربوالزنا انہٗ کان فاحشۃً و ساء سبیلا کو پیش کیا ہے۔ آپ نے بتایا کہ آیت نے زنا سے روکتے ہوئے اس کی بنیادی علت بھی بتادی ہے، اس علت کو لفظ ’’فحش‘‘ اور ’’سوء سبیل‘‘ سے تعبیر کیا ہے، یہی اس کی ممانعت کا معیار ہے۔ انہیں دو باتوں کی وجہ سے فعل زنا میں حرمت پیدا ہوتی ہے، اگر قلب میں فحش اور غلط روی کے بجائے عفت و پاکدامنی ہو اور نکاح اور ملک متعہ کی راہ اختیار کرے تو یہی فعل حرام ہونے کی بجائے حلال ہوجاتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ خود یہ فعل اپنی ذات سے برا ہے نہ ممنوع، ’فحش‘ سوء سبیل، نے اس میں ممانعت کا حکم پہنچایا ہے، اس لئے اس آیت میں حکم زناکی ممانعت کے ساتھ اس کا معیار بھی ذکر کر دیا ہے کہ وہ فحش اور سوء سبیل ہے یعنی بے حیائی اور بے راہی، اس لئے اس قرآنی حکم کومعیاری حکم کہیں گے نہ کہ انجیل کے حکم کو کہ جس میں صرف ممانعت زنا تو ہے معیار کا کوئی ذکر نہیں اور جب کہ یہ علت ہی معیارِ حکم ہے اور انجیل میں مذکور نہیں تو انجیل کا یہ حکم معیارِ اخلاق تو کیا ہوتا معیارِ حکم بھی نہیں ، حکم اور علت دونوں کو ساتھ ساتھ ذکر کردینے سے یہ معلوم ہوگیا کہ ممانعت میں فعل زنااصل نہیں بلکہ فحش اور سوء سبیل اصل ہے تو ممانعت فحش اور سوء سبیل کی چوں کہ زنا میں بھی علت ہے اس لئے وہ بھی ممنوع ہوئی۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ فحش ممنوع جس فعل میں پایا جائے گا وہ فعل بھی بضمن فحش درجہ بدرجہ ممنوع ہوتا چلا جائے گا جیسے اجنبی عورت پر نگاہ ڈالنا، اس کی طرف بری نیت سے چل جانا، اسے ہاتھ لگانا، دل میں اس کے خیالات پکانا وغیرہ فحش کے افعال تھے اس لئے یہ سب ممنوع قرار دئیے گئے اسی لئے حدیث میں نگاہ بازی کو آنکھ کا زنا کہا گیا ہے، اجنبی عورت کو چھونے کو ہاتھ کا زنا کہا گیا، بدکاری کی نیت سے چل کر جانے کو پائوں کا زنا کہا گیا ہے اس لئے فحش کی علت کی بنا پر ایک زنا ہی حرام نہیں ہوا بلکہ وہ سارے افعال بھی ممنوع ہوگئے جس کو فحش اور بے حیائی نے ابھارا ہو جن کو ہماری شریعت میں دواعی زنا کہا گیا ہے بس اس ایک حکم زنا کی ممانعت سے ایک ہی آیت کی بدولت بے حیائی کے ہزاروں افعال حرام ہوگئے جو درحقیت بیان معیار کا اثر ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے قرآن کے اس حکم اور بائبل کے حکم کا موازنہ کرتے ہوئے قرآنی حکم کی وسعت پھیلائو جامعیت اور اس کے دوررس اثرات کی حقیقت و معنویت کو اتنا واضح کیا ہے کہ اس کے بعد کسی کلام کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ حضرت حکیم الاسلامؒنے اپنے دعوے میں کہا ہے کہ قرآن میں ننانوے اخلاقی معیار بتائے گئے ہیں اور ان کو خداوند قدوس کے نناوے اسمائِ حسنیٰ سے ثابت کیا ہے، آپ نے سب سے پہلے حدیث سے ننانوے