حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
تھے جس کے رعد و برق کی طرح کڑکنے اور گرجنے والے عیسائی مناظرین میں شہر خموشاں کا سکوت اور قبرستان کا سناٹا چھا گیا، بائبل کی تحریف کے ثابت کرنے کے باوجود بائبل کے حوالے پیش کردہ ان دسوں احکام کے بارے میں تحریر کیا کہ یہ امور نہ خود معیار اخلاق ہے اور نہ معیار اخلاق بن سکتے ہیں کیوں کہ یہ دس باتیں مثلاً چوری مت کر، زنا مت کر، تو خون مت کر از قسم افعال ہیں جن کا تعلق کرنے نہ کرنے سے ہے، از قسم اخلاق نہیں ہیں جو قلب کے خلقی مادے ہیں ۔ اخلاق کی حیثیت بیج کی ہے اور قلب اس کے لئے زمین ہے۔ جب یہ بیج اس کی جڑ کو پکڑ لیتا ہے تو اس بیج سے شاخیں پھوٹتی ہیں ، شاخوں سے تخم نہیں بنا کرتا اس لئے افعال سے سرزد ہو سکتے ہیں لیکن افعال سے اخلاق پیدا نہیں ہوتا، آدمی میں خلق و شجاعت ہے تو اس سے حملہ کرنے کا فعل ظاہر ہوگا، آدمی میں جو خلق دوستی ہے اس سے داد و دہش کا فعل وجود میں آئے گا۔ اس طرح تمام افعال اخلاق کی بیج سے پیدا ہوتے ہیں قلب میں صبر، شکر، سخاوت، شجاعت، مروت، غیرت، حیا و غنا جن کو اخلاق کہا جاتا ہے اگر انسان میں یہ اخلاق پیدا ہوجائیں تو اس شخص سے انہیں اخلاق کے مطابق افعال سرزد ہوں گے اس لئے آپ کا بیان کردہ چوری نہ کر، زنا نہ کر، خون مت کر معیارِ اخلاق کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص شاخوں کو بیج کے اچھے ہونے کا معیار بتانے لگے، پھر ان جملوں سے ان جڑوں کے حرام ہونے کا تو علم ہوسکتا ہے لیکن ان سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان فعلوں کی ممانعت کی بنیاد کیا ہے اور ان افعال کی حرمت کی علت کیا ہے وہ علت ہی درحقیقت معیار حکم بن سکتی ہے پھر یہ علت جہاں جہاں پائی جائے گی وہ چیز حرام ہوتی چلی جائے گی، ان جملوں سے ان کی علتوں کا کوئی پتہ نہیں چلتا اس لئے وہ ایک جزئی حکم بن کر رہ جاتا ہے اور بطور حکم کلی اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا اور جزئیات منفردہ کا نام قانون اور ضابطہ نہیں ہوتا، معیار قانون اگر دیکھنا ہے تو یہ ہے جو انہیں احکام کے بارے میں قرآن عظیم نے بتایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک جزئی حکم کے ساتھ اس کی جامع علت اور علت و حکم کا درمیانی رابطہ دکھلا کر اسے معیاری قانون بنا دیتا ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے قرآن کی متعدد آیتوں سے اس کی مثالیں پیش کی ہیں ان سے ایسے حکیمانہ نکتے پیدا کئے ہیں ، جہاں تک عام اہل علم کی نگاہیں عام طور پر نہیں جاتی ہیں اور ان کے ذہن و نقاد نے جو نتائج نکالے ہیں ان سے قرآن کی جامعیت اور قرآنی الفاظ کی معنوی وسعت، اسلامی قانون کی گیرائی و گہرائی کا یقین ہوتا چلا جاتا ہے اور دل حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ آیتیں روز پڑھی جاتی ہیں لیکن ان لطیف نکتوں کی طرف ذہن نہیں جاتا ہے جو درحقیقت روحِ کلام اللہ کا درجہ رکھتے ہیں ، حکیم الاسلامؒ کی نکتہ شناسی اور دقیقہ رسی کی اسی سلسلہ میں ایک مثال پیش ہے۔