حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
پڑھے لکھے تھے۔ انہوں نے بھی مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ جاری رکھی۔ اسی طرح ایک پادری نے روڑکی سے حضرت حکیم الاسلامؒ کو ایک خط لکھا جس میں اس نے اسلام پر کچھ اعتراضات کئے اور اسلام کے اخلاقی نظام کو اپنا نشانہ بنایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام سے عیسائیت کا نظام اخلاق کہیں بہتر اور برتر ہے، اس خط میں سب سے اہم اور بڑا اعتراض حضرت زینبؓ سے حضور اکرمB کے نکاح پر تھا کہ آپ نے زینب کے حسن سے متاثر ہو کر ایک مسلمہ اصول کو نظر انداز کردیا اور اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا جب کہ خود عرب میں بھی یہ معیوب تھا لیکن زینبؓ کے حسن نے آپ کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور چاہتے تھے کہ کسی طرح سے زینبؓ سے نکاح کر لیں ۔ قرآن نے خود کہا کہ آپ دل میں جو کچھ چھپا کر رکھتے ہیں اللہ ان کو ظاہر کردینے والا ہے۔و تخفی فی نفسک مااللہ مبدیہ قرآن میں موجود ہے اس خط میں کہا کہ ’’قرآنی اخلاقی معیار ایک عجیب چیز نظر آتی ہے جب بیٹے کی بہو پر طبیعت چلی گئی تو پھر آسمانی وحی نے ساری روحانیت، نیکی اور سچائی پر ایسا بھاری پردہ ڈال دیا کہ تمام دینداری چھپ گئی اور اپنے بیٹے کی بہو کو اپنی بیوی بنانے کا حق اللہ میاں سے حاصل ہوگیا۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ زید کی بیوی کو نبی کی جورو بنادینے کا حکم غلط ہی نہیں بلکہ گناہ اور زنا کاری کو فروغ دینا ہے کیوں کہ خدا ایسی بات نہیں کر سکتا کہ ایک موزوں جوڑے کو توڑ کر ایک نہایت غیر موزوں جوڑا بنا دیا جائے۔‘‘ اس کے بعد پادری نے قرآنی نظام اخلاق کے مقابلہ میں بائبل کے بیان کردہ نظام کے دس اصولوں کو ترجیح دی ہے، بائبل کے ان اصولوں میں سے چوری نہ کرنا، زنا نہ کرنا،خون مت کرنا کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے اولاً بائبل کے حوالے سے پیش کردہ دس احکام کو معیارِ اخلاق دینے پر جو گفتگو کی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ انیسویں صدی میں ہونے والے عیسائیوں سے معرکۃ الاراء مناظروں کی بحثوں سے پوری طرح واقف ہیں جن اسلامی مناظروں کے مستحکم دلائل کی قوت ان کی تاثیر ان کی اثر اندازی نے عیسائی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا اور جس کی وجہ سے ہندوستان سے یورپ تک کے عیسائیوں کے دل ودماغ کو لقوا مار گیا تھا اور میدانِ مناظرہ سے عیسائی مناظرین اس طرح سرپٹ بھاگے کہ قرآن نے باطل کے قرار کی جو محاکات کی ہے اس کا پورا نقشہ سامنے آگیا۔ جَائَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ حضرت حکیم الاسلامؒنے اصل مسئلہ پر گفتگو سے پہلے موجودہ بائبل کو ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے انہیں ناقابل شکست دلائل سے اس کومحرف ثابت کیا جو ان کے اسلاف نے عیسائی دنیا کے سامنے پیش کئے