حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
لیکن علم میں مساوات تو پیدا ہوگئی ہے اور یہ سراسر مشرکانہ عقیدہ ہے کہ عبد و معبود دونوں میں کسی طرح کی مساوات پیدا کی جائے۔ حضرت حکیم الاسلامؒنے اس بحث کو بڑی تفصیل سے لکھا ہے اور خود آیت ہی کے لفظوں سے اس ذہنی خلجان کو واضح طور پر دور کردیا ہے، اس سلسلہ میں آپ نے تحریر کیا ہے کہ اظہار غیب کے موقع پر رسول کا لفظ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے یعنی جس ذات پر غیب کو ظاہر کیا گیا ہے وہ وصف رسالت سے متصف ہے یعنی اطلاع غیب کی مستحق اور متقاضی کسی رسول کی ذات نہیں بلکہ وصف رسالت اور عہدہ و منصب نبوت ہے اسی وجہ سے خصوصیت کے ساتھ اس موقع پر لفظ رسول لاگیا ہے اور یہ بالکل واضح اور ہر شخص جانتا ہے کہ رسول کی رسالت کا موضوع اور مقصد توحید اور اصلاح خلق اللہ ہے نیز بندگانِ خدا کی راہِ حق کی طرف رہنمائی اور ان کی تربیت و تکمیل ہے اس لئے وصفِ رسالت کا قدرتی تقاضا وہی علوم غیب ہو سکتے ہیں جو کہ ہدایت و اصلاح میں کار آمد ہوں اور جن علوم غیبیہ کا اصلاح و تربیت میں دخل نہ ہو اس سے وصفِ رسالت کو خود ہی سروکار نہ ہوگا، مغیبات میں قیامت کے وقت، اس کی تاریخ و سن یا اس کی مدت کے قرب و بعد کی اگر رسولوں کو اطلاع نہ ہو جیسا کہ قرآن کی متعدد آیتوں سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا علم کسی کو نہیں دیا گیا ہے اسی طرح ان بے شمار کائناتی حوادث اور جزئیات کا انہیں علم نہ ہو جو روز مرہ دنیا میں رونما ہوتی رہتی ہیں تو یہ ان کے حق میں نہ صرف یہ کہ کسی طرح کا نقص نہیں بلکہ ان امور کا علم نہ ہونا ہی ان کے وصفِ رسالت کا ایک طبعی و فطری تقاضا ہے۔ جب رسولوں کو علم غیب کی طرف وہی قسم دی گئی ہے جن کا ان کے منصب رسالت سے تعلق ہے اور بقیہ مغیبات کا علم نہیں دیا گیا کیوں کہ ان کے منصب نبوت کو ان کی ضرورت ہی نہیں تھی تو پھر اس سے نبی ؑ کی شان میں نقص کہاں لازم آتا ہے؟ ان حقائق کے ہوتے ہوئے رسول کے لئے جمیع ماکان و مایکون کے علم کا دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے جو قرآن کے اُسلوب بیان اور شریعت خداوندی کے مزاج سے ناآشنا اور وصف رسالت کے فطری تقاضوں سے بے خبر ہو۔ قرآن و حدیث اور عقل و نقل سے علم غیب کے مسئلہ کی صحیح صورت پیش کرکے آخر میں تحریر کیا کہ قرآنی تصریحات و تلمیحات کے ہوتے ہوئے حضرت سید الاولین والآخرین حضور اکرمB کے لئے علم غیب کا دعویٰ اور وہ بھی علم کلی اور علم ماکان و مایکون کی قید کے ساتھ نہ صرف بے دلیل و بے سند بلکہ مخالف دلیل معارض قرآن اور اس توحیدی شریعت کے مزاج کے خلاف ہونے میں اب کوئی شبہ باقی نہیں رہا، علم ماکان