حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت حکیم الاسلامؒ نے اس دکھتی ہوئی رگ پر بڑے ماہر انداز میں نشتر لگائے ہیں جس کو تقلیدشخصی کہہ کر بدنام کیاجاتا ہے۔ آپ نے محکم دلائل سے ثابت کردیا کہ اجتہاد مشروع ہے۔ اجتہادیات پر عمل بھی مشروع ہے، ان کا مجموعی ذخیرہ فراہم کرانا بھی شرعی چیز اس مجموعہ کا نام رکھنا بھی شرعی بات ہے تو اس کے بعد آپ نے بتایا کہ اجتہادیات میں غیر مجتہد کے لئے تقلید کرنا بھی ناگزیر اور ضروری ہوجاتا ہے، یہ صحیح ہے کہ اجتہادی مسئلوں میں دو رائیوں یا اس سے زیادہ کا ہونا فطری اور قدرتی بات ہے اور وہ دائرہ شرع میں داخل ہے تو ایسے اختلافی مسائل میں تقلید شخصی بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ آپ نے عقلی مقدمات ترتیب د ے کر بطور نتیجہ ثابت کیا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے تقلید شخصی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے اگر ایک شخص اپنی صواب دید کے مطابق کسی مسئلہ میں کسی امام کی رائے پر عمل کرتا ہے تو وہ تقلید شخصی ہی تو ہوتی ہے کیوں کہ دو مخالف رایوں پر بیک وقت عمل ممکن نہیں ہے اس لئے جب کسی مسئلہ خاص میں کسی امام کی رائے ترک کرکے دوسرے امام کی رائے پر عمل کرتاہے تو وہ بھی تقلید شخصی ہوئی۔ فرق یہ ہے کہ پہلے امام کے بجائے اب اس نے دوسرے امام کی رائے قبول کرلی ہے پہلے امام کی رائے کو ترک کردیا ہے۔ سب سے اخیر میں آپ نے اس بحث کو چھیڑا ہے جو حاصلِ کلام ہے اور جس کے لئے یہ کتاب معرض وجود میں آئی ہے اور وہ مسئلہ ہے امام واحد کی تقلید کا۔ اگر تقلید ضروری ہے تو پھر ایک ہی امام کی تقلید کیوں ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر امام اور مجتہد کا اہلِ علم میں شمار ہے اور جن میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں وہ اہل علم نہیں ٹھہرے اب وہ کسی بھی اہلِ علم یا مجتہد کی رائے پر عمل کرتا ہے تو اس کا یہ فعل عین شریعت و منشاء ہونا چاہئے۔ ایک شخص بعض مسائل میں امام ابوحنیفہ کی تقلید کرتا ہے اور بعض مسائل میں امام مالک کی رائے پر عمل کرتا ہے ۔ کچھ ایسے مسئلے ہیں جن میں وہ امام شافعیؒ کی رائے قبول کر لیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے ہر حال میں وہ اہل علم اور مجتہد ہی کی رائے پر عامل ہوتا ہے پھر یہ بات اس کے لئے ممنوع کیوں ہوگئی جب کہ وہ فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ پر عمل کرتا ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒنے اس بحث کو بڑی تفصیل سے تحریر فرمایاہے اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ بیک وقت ایک سے زیادہ ائمہ کی تقلید کی صورت میں بعض مسائل میں جزئیاتی تناقض ہوگا بعض میں ان جزئیات کے کلیوں اور اصولوں میں تناقض نمایاں ہوگا اور پھر اس دعویٰ کو درجنوں مثالوں سے واضح کیا ہے اور تناقض کی مختلف صورتوں کو تحریر کیا ہے پھر بتایا ہے کہ کسی مجتہد کے مزاج میں توسیع کا غلبہ ہے اور کسی کے مزاج میں احتیاط کا، کسی میں شدت ہے کسی میں طینت، کسی میں جمعیت کا غلبہ ہے اور کسی میں جامعیت کا، کسی کسی میں