حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اسلامی تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں بھی یہی صورت حال رہی ہے کہ اگر کوئی صحابی مجتہد ہے تو دوسرے صحابی کے قول و عمل پر عمل کرتے تھے، واقعات شاہد ہیں ۔ عبداللہ بن عمر سے پوچھا گیا کہ قرض دینے والا قرض کی مدت سے پہلے قرض ادا کرنے پر قرض کا کچھ حصہ کم کرنے کے لئے تیار ہے تو کیا یہ درست ہے؟آپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور ایسا کرنے سے منع کیا جب کہ اس سلسلہ میں کوئی مرفوع حدیث موجود نہیں تھی، ظاہر ہے کہ یہ ان کا اجتہاد تھا، اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو اس شرط پر غلہ دیا کہ وہ دوسرے شہر میں اس کو ادا کرے گا حضرت عمرؓ نے منع فرمایا اور کہا کہ بار برداری کا کرایہ کہاں گیا؟ اس مسئلہ میں بھی کوئی حدیث مرفوع حضورؐ سے مروی نہیں ، کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ حضرت عمرؓ کا اجتہاد تھا، مذکورہ بالا دونوں مسئلوں پر عمل کیا گیا سامعین نے حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی باتیں مانیں اور انہیں پر عمل بھی کیا، سوال کرنے والوں نے ان حضرت سے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا حالاں کہ سائل و مسئول دونوں صحابی ہیں لیکن ایک میں اجتہادی ملکہ تھا دوسرے میں نہیں اس لئے جو اہل علم نہیں تھے انہوں نے اہل علم کی رائے پر عمل کیا اور ان کی اتباع کی۔ حضرت حکیم الاسلامؒنے اس شبہ کا ازالہ بھی دلائل و براہین کی روشنی میں بہت واضح طور پر کردیا کہ اجتہاد کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہوا ہے اور ہر ابجد خواں مدعی اجتہاد بن جائے، شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش نہیں ، ہاں عام تحقیق و تلاش کتاب و سنت میں تدبر ان کے لطائف و حقائق کا استخراج ہر زمانہ کے تکوینی حوادث سے تشریعی مسائل کو تطبیق دے کر مناسب فتاویٰ دینا، معاندین اسلام کے نئے نئے شکوک و شبہات اور اعتراضات کی تردید کے لئے نصوص شرعیہ سے استنباط کرنا، اصول اسلام کے اثبات اور تحقیق کے لئے کتاب و سنت سے تائید پیدا کرنے کا کام باقی ہے اور ہر دور میں اہل علم کے لئے میدان باقی ہے۔ اجتہاد کی یہی نوع کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی اجتہاد کی بحث سے لازمی طور پر ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ مجتہدین کی رایوں میں اختلاف کی صورت میں سوائے امت کی تفریق کے اور کیا حاصل ہوگا؟ امت میں اختلاف ہے کہ شریعت کے احکام کی کوئی معین صورت اور تحقیقی شکل باقی نہیں رہے گی، یہ اختلاف زحمت کے بجائے رحمت بن جائے گا اس خلجان کو دور کرنے کے لئے حکیم الاسلامؒ نے ایک لطیف اور دقیق بحث چھیڑی ہے اور انہوں نے عقل و روایات کی روشنی میں اسے امت کے لئے رحمت ہی ثابت کیا ہے، اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے آپ نے جو مقدمات ترتیب دئیے ہیں عقل کو اپیل کرنے والے ہیں اس لئے آپ نے ان مقدمات سے جو نتیجہ نکالا ہے عقل اسے خود قبول کر لیتی ہے۔