حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
یہ نتیجہ نکالنے کے بعد حضرت حکیم الاسلامؒ نے بتایا کہ جس جس طرح کائنات کا نظام درجۂ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد اس میں تغیر و تبدل نہ ہوتے ہوئے بھی سیکڑوں اور ہزاروں پہلو ایسے ہیں جو اب تک نگاہوں سے مخفی ہیں اور جب غور و فکر سے کام لیا جاتا ہے تو ایسے ایسے عجائبات و غرائب نگاہوں کے سامنے آتے ہیں جہاں تک عقلِ انسانی کی اب تک رسائی نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح تشریع کے منظم احکام و مسائل اور قواعد و کلیات کے مخفی علوم و اسرار کا پتہ لگا کر ان سے تدیّن کے نئے نئے فروعی مسائل، لطائف و ظرائف اور حقائق و معارف پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ تکوینی اکتشافات کا نام ایجاد ہے اور تشریعی استخراج کا نام اجتہاد ہے۔ آپ نے کتاب میں آگے چل کر بتایاکہ اجتہاد کا رنگ ہر دور کے علمی ذہنیت اور تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔مجتہد انہیں کے مسائل کے استخراج پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے جن کی اس دور کو ضرورت ہوتی ہے اورجب ضرورت پوری ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اجتہاد کا وہ دور نہیں لوٹتا جو آچکتا ہے کیوں کہ زمانہ کو بات حاصل ہوچکی ہوتی ہے اب صرف اس سے نفع اٹھانے کا موقع رہ جاتا ہے۔ آپ نے مزید ارقام فرمایا کہ ہر دور میں مسلمانوں میں دو طبقے رہے ہیں ، ایک وہ جن میں قدرت نے استنباط و استخراج مسائل کی فطری صلاحیت ودیعت کردی تھی اور دوسرے وہ لوگ جو اس نعمت عظمیٰ میں اس کے شریک نہیں تھے، جن کی احادیث کے ذخیرے پر نگاہ ہے وہ جانتے ہیں کہ صحابہ کرام میں بھی دو طبقے موجود تھے، بعض صرف حافظِ حدیث تھے اور بعض فقیہ و مجتہد تھے جیسے ابن عباسؓ، ابن عمرؓ، ابن مسعودؓ حضرات شیخین رضی اللہ عنہم، پھر فقہائے صحابہؓ میں بھی فرق مراتب تھا۔ بعض کے ذہن کی رسائی بہت گہری تھی اور بعض کی اس سے کم کیوں کہ ملکۂ اجتہاد وہبی ہوتا ہے کسبی نہیں ، بعض اس کے اہل ہوتے ہیں بعض نہیں ۔ احادیث، قرآن اور واقعاتِ صحابہ سے بہت سی مثالیں دیتے ہوئے اس فرقِ مراتب کو آ پ نے واضح کیا ہے۔ فرقِ مراتب کی موجودگی نے یہ ثابت کردیا کہ اگر اجتہاد ضروری ہے تو تقلید بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قدرت نے جن لوگوں کو قوت اجتہاد نہیں دی ہے ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں جو اس کی دسترس سے باہر تھا مجتہد کی تقلید کرے اور اس پر عمل کرے جب خود علم نہیں رکھتا تو علم والے کی اتباع کرے۔ خود ان کے مخفی دلائل و علل تک نہیں پہنچ سکتا ہے تو دانیان اسرار و علل کے سامنے جھک جائے کیوں کہ علم کے دو ہی مرتبے ہیں یا تو خود سمجھنا یا سمجھے ہوئے لوگوں کی اطاعت کرنا، اس کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اس دعویٰ کی تائید کے لئے شاہد عادل ہے۔