حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کی صحت و ضعف اس سلسلہ کے راویوں کی جرح و تعدیل تک سے واقف ہوجاتے ہیں ، زیادہ تر یہ بحث انہیں چند جزئی مسئلوں تک محدود رہتی ہے۔ ان مسئلو ں نے ہندوستان میں دو گروہ بنا دئیے ہیں جو آج تک قلمی معرکہ آرائیوں اور نبرد آزمائیوں میں مصروف ہیں ، ان مسائل کی بحث بھی ناتمام ہے۔ ایک صدی گزر چکی ہے لیکن ہنوز روزِ اول ہے، ہندوستان کی فضا میں اب بھی ہل من مبارز کی صدا گونجا کرتی ہے۔ ان دونوں گروہوں کا بنیادی اختلاف تقلید و عدم تقلید کا مسئلہ ہے جو اجتہاد کی ضرورت اور اس کی شرائط کی تفصیلات پر منحصر ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو سارے مسائل از خود حل ہوجائیں ۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے تک ہندوستان کے مسلمانوں میں ساری تباہیوں اور بربادیوں کے باوجود اس بحث و مباحثہ سے دلچسپی باقی رہی ہے اور اس دور کے ہر قابلِ ذکر عالم نے جس کے ہاتھ میں قلم تھا اس مسئلہ پر کوئی کتاب یا کوئی رسالہ ضرور لکھا، شبلی جیسا مؤرخ اسلام اور محقق انسان بھی اس گروہ بندی اور ہنگامہ آرائی سے دامن نہ بچا سکا اور ’’المعتدی‘‘ لکھ کر ان مجاہدین کی صف میں شامل ہوگیا جو عدم تقلید کے خلاف مصروفِ جہاد تھی۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کا دورِ شباب اسی ماحول اور فضا میں گزر رہا تھا وہ کیسے اس سے دور رہ سکتے تھے، اس لئے اس فضا سے متاثر ہو کر آپ نے بھی ایک مختصر رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے نام سے سپردِ قلم کیا اور حق یہ ہے کہ بحث کا حق ادا کردیا، آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بدیع المثال نمونے پیش کئے ہیں جن کی طرف ابھی ایسی کوئی غائرانہ نظر نہیں ڈالی گئی تھی اور اپنی حکیمانہ نکتہ رسی کی وجہ سے مباحث کے ایسے ایسے پہلوئوں کو منصۂ شہودپر لائے ہیں جن کی طرف عام طور سے اہل علم کے ذہن نہیں گئے تھے۔ اس رسالہ میں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی اور وہ راہ اختیار نہیں کی جس پر دوسرے ہزاروں نقوش قدم پہلے سے موجود تھے بلکہ انہوں نے اپنی راہ خود نکالی۔ آپ نے اصل بحث سے پہلے گفتگو کا آغاز تکوین و تشریع کے درمیان ایک تعلق خاص کو بتاتے ہوئے نتیجہ نکالا کہ جس طرح کائنات عالم کے کلی مادے آب، خاک اور باد و آتش پھر مادوں کی کلی موالید جمادات، نباتات، حیوانات پھر ان کے علویات اور سفلیات پھر موالید علوی و سفلی کی جامع انواع و اجناس انسان، شیر، بکری، شجر، حجر، بحر و بر، جن و ملک، سیارات و ثوابت، ارض و سماء وغیرہ وغیرہ کی یہ مجموعی ہیئت جیسے ’عالَم‘ کہتے ہیں کوئی کمی بیشی قبول نہیں کر سکتے۔ اسی طرح دین کے اصول و کلیات اساسی قواعد و ضوابط اور تمام منصوص عقائد و احکام کی اس مجموعی ہیئت کذائی میں جسے عالَم کہتے ہیں اب کوئی کمی بیشی اور ترمیم و تنسیخ نہیں ہو سکتی کیوں کہ لن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا کہہ دیا گیا۔