حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اس سلسلہ میں آپ کے دو اہم خطبات صدارت بھی قابل ذکر ہیں ، ایک ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کے عنوان سے ہے، جو آپ نے دسمبر ۱۹۷۶ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ دہلی میں دیا تھا، اس خطبہ میں آپ نے فکر و تعقل کی اہمیت، قواعد و اصول اور جزئیات کی افادیت، ضمیر کی آزادی اور حریت رائے، نیز اسلام کی عالمگیریت پر بڑی حکیمانہ روشنی ڈالی ہے۔ دوسرے نومبر ۱۹۷۳ء میں مسلم پرسنل لاء کنونشن بمبئی کا خطبہ صدارت جو نہایت ولولہ انگیز اور تاریخی خطبہ ہے، جس میں قانون شریعت کی اہمیت اور اس کے اعتدال و توازن پر نہایت ہی عالمانہ طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسلام کی حفاظت و مدافعت کے پہلو سے جو علمی و تالیفی خدمات آپ نے انجام دی ہیں ، ان کے علاوہ تحریکی اعتبار سے بھی آپ کی خدمات نہایت ہی اہمیت کی حامل ہیں ، جن میں سب سے جلی عنوان ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘ کا ہے، ہندوستان میں آزادی سے پہلے معمارانِ قوم یہ وعدہ کرتے آرہے تھے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کے پرسنل لاء کو تحفظ دیا جائے گا، پھر جب دستور بنا تو مذہب پر عقیدہ، اس پر عمل اور مذہب کی تبلیغ کی آزادی کو اقلیت کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا لیکن بدقسمتی سے آہستہ آہستہ حکومت کا تیور بدلنے لگا، مسلم پرسنل لاء کے خلاف سرکاری ذمہ داروں کے بیانات کے ذریعہ تبدیلی کا راستہ کھولنے کی کوشش کی گئی، اس موقع پر حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ نے دارالعلوم دیوبند میں اس موضوع پر اجلاس طلب کیا، جس میں علماء اور دانشوران شریک ہوئے۔ پھر نومبر ۱۹۷۲ء میں اس اجلاس کی تحریک پر بمبئی کا وہ عظیم الشان کنونشن منعقد ہوا، جس کے بارے میں بزرگوں کا تصور تھا کہ خلافت تحریک کے بعد ایسا ہمہ مسلکی، ہمہ جماعتی اور ہمہ علاقائی اجلاس منعقد نہیں ہوا، اس اجلاس کی صدارت کے لئے آپ ہی کا انتخاب عمل میں آیا، اس اجلاس نے بورڈ کی تشکیل کا فیصلہ کیا، بورڈ کی تشکیل مسلکی اورجماعتی کشاکش کی وجہ سے بہت دشوار کام تھا لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ کی بالغ نظر، معتدل اور مرنجان مرنج شخصیت کی شکل میں ایک ایسی شخصیت موجود تھی جن کی صدارت پر تمام لوگوں کا اتفاق ہوگیا اور پھر آپ کی وفات تک تحفظ شریعت کا یہ کارواں نہایت ہی کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا اور ایمرجنسی جیسے پرافتاد حالات میں بھی آپ کی حکیمانہ قیادت میں اس نے سفر جاری رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خارجی فتنوں کا مقابلہ اور دین حق کا دفاع آپ کی کاوشوں کا خاص ہدف تھا اور اس معاملہ میں بھی آپؒ دیوبند کے اصل مزاج و مذاق اور فکر و نظر کے نمونہ تھے، کیوں کہ دارالعلوم کے قیام کے