حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
علمے است برہنہ زر کہ تحصیل زر است علم خالی ہاتھ سے ہے جس سے زر حاصل ہوتا ہے تن خانۂ عنکبوت دل بال و پر است تن خاکی مکڑی کا ایک جال ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ، دل اس کے لئے پر اور بازو ہے جس سے وہ پرواز کرتا ہے اور عرش تک جا پہنچتا ہے۔ زہر است جفائے علم و معنی شکر است راہ علم کی محنت سانپ کا زہر ہے اور اس کی معنویت جو اس کے اندر مخفی ہے شکر ہے جس سے روح تک شیریں ہوجاتی ہے۔ ہر پشہ از و چشید آں شیر نر است مچھر (یعنی کمزور سے کمزور انسان بھی) اسے چکھ لے تو وہی شیر نر ہے۔ ظاہر مسماۃ نہانی کی یہ قابلیت پردہ دری کی رہین منت نہ تھی بلکہ پردہ پوش اور وہی شاہی حرم سرا کے پردوں میں رہ کر تھی جس کا پلہ بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، ریاض الفردوس میں ایک درجن ایسی فاضلہ عورتوں کے تذکرے ملتے ہیں جو فضلاء وقت تھیں اور مرد ان سے استفادہ کرتے تھے مگر یہ سب کچھ اسی دور کی تاریخ ہے جو آج کی بے حیائی اور بے پردگی سے بہت دور تھا، اور ان تمام علوم و فنون میں صنف نازک نے اپنے پردہ کو محفوظ رکھ کر ہی ترقی کی تھی، ایسی مثالیں بعد کے قرون میں بکثرت ملتی ہیں جن میں پردہ کے تحفظ کے ساتھ علوم و فنون کی گرم بازاری قائم رہی۔ ان کے یہ سارے علمی و عملی کمالات معاذاللہ پردہ دری کے نتائج نہ تھے بلکہ پردہ داری اور پاک دامنی کے ثمرات تھے، ہوائو ہوس کے نہیں بلکہ ہدیٰ و تقویٰ کے، پس ان جیسی صدہا اور بے شمار فاضل و پاکباز عورتیں آخر پردہ میں رہ کر کس طرح زیور علم سے آراستہ ہوگئیں ، یا اگر بفحوائے کریمہ ’’وَاذْکُرْنَ مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃ‘‘ خانگی تعلیم مسلمان بچیوں کے لئے ناکافی ہوتی تو اس قدر کافی علم و معرفت اور فقہ ان جیسی ہستیوں کو کیسے میسر آگیا۔ مسلمانوں پر فرقہ واریت کا الزام لگایا جاتا ہے اس موضوع پر بھی آپؒ کا رسالہ اسلام اور فرقہ واریت، (صفحات:۸۰) نہایت اہم رسالہ ہے جس میں آپ نے اسلام کی عالم گیریت اور اس کے علاقائی، قبائلی اور سیاسی تعصبات سے بالا تر ہونے کی بات بڑے مدلل انداز میں پیش فرمائی ہے، اس ذیل میں ایک جگہ