حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت اُمۃ الجلیل اولیاء کبار میں سے ہیں ، مشائخ وقت معرفت کے مسائل دقیقہ ان سے حل کیا کرتے تھے۔ عفیرہ عابدہؒ کے پاس ان کے علوم و کمالات اور قرب الٰہی کے سبب عبادِ زمانہ دعا کرانے کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ حضرت شعوانہ ایسی جلیل القدر عالم باطن تھیں کہ فضیل ابن عیاض رحمۃ اللہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور دعاء کے خواہش مند ہوتے۔ آمنہ رملیہؒ مشہور عارفہ ہیں ، بشر بن حارث اور امام احمد بن حنبل امام علوم ان سے نیاز مندانہ پیش آکر دعاء کے خواستگار ہوئے۔ حضرت سیدہ نفسیہؒ کی جلالت قدر کے سبب امام شافعیؒ ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے، حضرت ست الملوکؒ اپنے زمانہ کی مقبول بارگاہِ حق تھیں ، بڑے بڑے علماء و مشائخ ان کی عظمت کرتے اور استفادہ کے خواہش مند رہتے۔ یہ بطور نمونہ ان چند مشاہیر عورتوں کے اسماء گنا دئیے گئے ہیں ، ان جیسی ہزارہا فاضلہ عالمہ عورتیں امت کے ہر قرن میں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنے فضل میں مردوں کی نوع کو مات دے دی، جن کے لئے کتاب صفۃ الصفوۃ میں مستقل باب رکھا گیا ہے، جس میں ان فاضلات و عالمات کی سوانح عمریاں درج کی گئی ہیں ، پھر فنون دین ہی نہیں فنون عصرشاعری ادبیات اور بلاغۃ ومعانی میں بھی عورتیں بڑی بڑی فاضلہ گذری ہیں ، مسماۃ نہانی جو والدۂ شاہ سلیمان کی مصاحب خاص اور حسن و جمال میں بے نظیر تھی اس درجہ کی ادیب اور شاعرہ تھی کہ اس نے اپنے نکاح کی شرط ہی یہ قرار دی تھی کہ جو اس کے ذیل کے ادیبانہ قطعہ کا جواب لکھ کر لائے گا وہ اس سے شادی کر لے گا۔ قطعہ یہ تھا : از مردِ برہنہ روئے زرمی طلبم میں خالی ہاتھ مرد سے زر چاہتی ہوں در خانۂ عنکبوت پر می طلبم اور مکڑی کے جال میں پر چاہتی ہوں من از دہنِ مار شکر میں سانپ کے منھ سے شکر چاہتی ہوں وز پشۂ مادہ شیر نر می طلبم اور مچھر کی مادہ سے شیر نر چاہتی ہوں مردوں میں سے کوئی شاعر اس کا جواب نہ دے سکا، ایک سعد اللہ خاں وزیر آگے آیا جس نے اس قطعہ کا برجستہ جواب دیا: