حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
تہذیب کاموازنہ جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی ہے اور اس سلسلہ میں مغرب کے موجودہ حالات پر بعض اعداد و شمار بھی نقل کئے ہیں ، نیز پردہ پرجو اعتراضات کئے جاتے ہیں اور اس کے جو نقصانات بتائے جاتے ہیں ، ان کا بھی تفصیلی رد فرمایا ہے، اس رسالہ میں خواتین اسلام کے علمی اور اصلاحی کارنامے کا بھی بڑا تفصیل سے ذکر آگیا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں ایک طویل اقتباس نقل کئے جانے کے لائق ہے : صاحب بدائع الصنائع کی بیوی اپنے دور میں ایسی فقیہ سمجھی گئی ہیں کہ ایک درجہ میں فتویٰ کا مدار ان پر ہوگیا تھا، اس فقیہ خاتون کے باپ نے اپنی بیٹی کے فضل و کمال کو دیکھ کر اعلان کیا تھا کہ جو شخص اپنے ممتاز علم اور راسخ تفقہ کا ثبوت دے گا، اس سے لڑکی کی شادی کی جائے گی، صاحب بدائع نے اس اعلان پر کتاب ’بدائع الصنائع‘تصنیف کرکے پیش کرائی، جو صاحب زادی کے باپ کو پسند آئی اور نکاح کر دیا، پھر خاوند و بیوی کے علم و کمال نے یہاں تک قلوب پر سکہ جمایا کہ اس زمانہ میں کوئی فتویٰ اس وقت تک معتبر نہ سمجھا جاتا تھا جب تک اس پر صاحب بدائع، ان کی علامہ بیوی اور خسر کے دستخط نہ ہوجاتے تھے۔ امام طحاوی کی صاحب زادی وہ اعلیٰ تعلیم رکھتی تھیں کہ امام ممدوح حدیث و فقہ کا املاء بھی ان ہی کے قلم سے کراتے تھے، خود بولتے تھے اور صاحب زادی قلم بند کرتی رہتی تھیں ۔ سعید بن المسیّبؒ کی عالمہ صاحب زادی کے فضل و کمال کی تمام اسلامی قلم رو میں شہرت پھیل گئی، خلیفہ وقت نے نکاح کا پیام دیا مگر نامنظورہوا، نکاح ایک غریب عالم و فاضل سے ہوا، ان جیسی سینکڑوں عالم و فاضل خواتین اسلام کی سوانح عمریاں مستقل کتابوں میں درج کی گئی ہیں ، پھر صحابیات میں کتنی ہی وہ خواتین ہیں جن کے فضل و کمال کو لسانِ نبوت پر سراہا گیا ہے، ایک عائشہؓ ہی حضور B نے نبوت کے آدھے علم کا حامل اور امین بتلایا ہے، کیا ان علم پرور خواتین اور ان جیسی دوسری ہزارہا قابل ذکر خواتین نے اپنا پردہ فروخت کرکے علم کی متاع خرید کی تھی؟ نہیں ، بلکہ امام طحاوی کی تو وفات کا سبب ہی اس عالم صاحب زادی کا حجاب و انفعال ہوا ہے،صاحب زادی سے مسائل فقہ کا املاء کرا رہے تھے، اس میں بعض نسوانی مسائل کا ذکر آیا، جس میں بعض مسائل جماع و مباشرت سے متعلق تھے، جن میں یہ لفظ بھی املاء میں آیا کہ ’’اذنجامعھن یکون کذا‘‘ (جب ہم عورتوں سے جماع کرتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے مثلاً غسل واجب ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ) صاحب زادی نے یہ مسئلہ لکھا اور غیر اختیاری طور پر کچھ ہلکا سا شرم آمیز تبسم کیا، اس پر امام طحاوی کی نظر پڑ گئی، بے حد منفعل ہوئے اور اسی انفعال سے مغلوب ہو کر وفات پاگئے، ظاہر ہے کہ حیاء دار سے حیا کی جاتی ہے، اس سے جہاں امام موصوف کی محجوبیت اور پردہ داری نمایاں ہوتی ہے وہیں صاحب