حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
b اسلام تنہامدار دین ہے۔ اس میں آپ نے بہت ہی مدلل انداز میں اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت کو ثابت کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام میں سارے فیصلے اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں ، نہ کہ قوم پرستی کی بنیاد پر، کیوں کہ قومیت خواہ رنگ و نسل کی بنیاد پر ہو یا علاقہ وطن کی اساس پر، وہ انسانوں کو تقسیم کرتی ہے، آپ نے اس میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ کوئی بات محض قومیت یا آبائیت کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہوسکتی، بلکہ اس پر عقلی یا نقلی دلیل ضروری ہے، آپ نے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام بنیادی طور پر مساوات کا قائل ہے، چنانچہ اس نے تحصیل علم میں کوئی امتیاز رکھا نہ عبادت میں اونچ نیچ، نہ قانون میں تفریق اور نہ حقوق میں جانب داری، یہاں تک کہ اس کے یہاں قانون کی نگاہ میں مسلم اور ذمی بھی برابر ہیں ، جس میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔(۴) اس مقالہ میں یہودیت و نصرانیت اور اسلام کے مزاج کو سمجھاتے ہوئے تفصیل سے دونوں کے نظریاتی فرق پر روشنی ڈالی گئی ہے، اسی ذیل میں ایک جگہ فرماتے ہیں : جس کا حاصل یہ نکلا کہ ایک یہودی یہودی نہیں بن سکتا ہے جب تک کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار نہ کرے، ایک نصرانی نصرانی نہیں بن سکتاجب کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کرے، ایک ہندو ، ہندو نہیں ہو سکتا جب کہ وہ غیر ہندی پیغمبر کا انکار نہ کرے، یعنی تفریق اقوام کو اعتقاداً و عملاً قبول نہ کرلے، لیکن ایک مسلم، مسلم نہیں بن سکتا جب تک کہ ان کے سارے پیغمبر کا اقرار کرکے ان کی تصدیق نہ کرے، نام بنام مذکور ہوں تو نام بنام اجمالی طور پر بلا ذکر نام مذکور ہوں تو اجمالی اور کلی تصدیق نہ کرے، چنانچہ اسلام نے پیغمبروں کو کبھی نہیں جھٹلایا، اس کے نزدیک پیغمبر کبھی غلط گوئی نہیں کرسکتے۔ (۵) آپؒ نے اسلام کی ’رحمت عامہ‘ کے ذیل میں اسلام کے نظامِ عدل پر بھی بڑی بصیرت افروز گفتگو کی ہے، پھر اس کے ضمن میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ نجات کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے اور غیر مسلم کوئی بھی، کتنا بھی اچھا کام کرے دوزخ میں ہی داخل ہوگا، تو ایسا کیوں ہے؟ اور کیا یہ تعصب نہیں ہے؟ آپ نے اسلام کے اصول مساوات اور مغرب کے تصور مساوات پر بھی روشنی ڈالی ہے، آپؒ نے ایک اصولی اور بنیادی حقیقت پر توجہ دلائی ہے کہ ’’تقسیم عمل اور تقسیم وظائف میں فرق استعداد و قابلیت کے لحاظ سے ہو سکتا ہے، مساوات کا تعلق حقیقتاً انسان کے اختیاری افعال سے ہے، غیر اختیاری امور سے نہیں ‘‘(۶) نیز آپ نے تاریخی حقائق اور مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ اسلامی نظریات اور اس کے منصفانہ اصول