مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
طلبہ پر اگر محنت کی جائے تو آج بھی کام کے بن سکتے ہیں فرمایا کارخانوں میں عمدہ سے عمدہ سامان تیار ہوتے ہیں ، کپڑے ایک سے ایک ڈزائن دار بنتے ہیں ، لیکن مدارس سے طلبہ ایک سے ایک اچھے کیوں نہیں نکلتے؟ اس لئے کہ کپڑا بنانے میں محنت کی جاتی ہے، اس کی نگرانی کی جاتی ہے، خرابی ہو تو اس کی اصلاح کی جاتی ہے یہ نہیں کہ دھاگہ ٹوٹ رہا ہے تو ٹوٹتا رہے اور کپڑا بنتا رہے، کپڑے میں چیر آرہی ہے تو آتی رہے اور اسی طرح کپڑا تیار ہوتا رہے، لیپ پوت کر نہیں رکھ دیتے، بلکہ جو خرابی ہوتی ہے اس کو فوراً درست کیا جاتا ہے تب جاکر عمدہ کپڑا تیار ہوتا ہے، اوپر سے محض پالش نہیں کردی جاتی کہ اس کا لیبل تو بڑا خوشنما اور اندر خراب مال، بلکہ خرابی کو فوراً دور کیا جاتا ہے، محنت کی جاتی ہے، نگرانی کی جاتی ہے، اپنے کو کھپا یا جاتا ہے تب جاکر عمدہ مال تیار ہوتا ہے، طلبہ میں بھی اگر اسی طرح محنت کی جائے ان کی نگہداشت کی جائے، ان کو بنانے کی فکر اور کوشش کی جائے، اپنے کو کھپایا جائے، تو ان کی اصلاح کیوں نہیں ہوسکتی اور وہ کیوں نہیں بن سکتے، جب لوہے پر محنت کی جاتی ہے تو لوہا بن جاتا ہے، مٹی پر محنت کی جائے تو وہ بن جاتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان پر محنت کی جائے اور وہ نہ بنے، اس کو بنانے کی کوشش تو کی جائے، محض پالش کردینے سے کام نہیں چلے گا، آج کل مدارس میں طلبہ کی اصلاح کی طرف توجہ تو ہوتی نہیں بس اوپر سے پالش چُپڑ دی جاتی ہے کہ اتنے لڑکے فارغ ہوئے، سالانہ جلسہ ہوا اشتہار چھاپ دیا کہ فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد ڈیڑھ سو ہے ان کی دستار بندی ہورہی ہے، پگڑی باندھی جارہی ہے، سنددی جارہی ہے، اور آتا جاتا خاک نہیں ، عمل کے میدان میں بالکل کورے یہ پالش نہیں تو اور کیا ہے، اشتہار چھپا ہوا کہ مدرسہ میں بہت ترقی ہورہی ہے، دو ہزار طلبہ ہیں ، دورۂ حدیث تک تعلیم ہے، اتنے کمرے ہیں ، مدرسہ ترقی پر ہے ماشاء اللہ ماشاء اللہ بس یہ پالش ہوگئی، اس سے کچھ نہیں ہوتا، طلبہ کو بنانے کی کوشش کی جائے کہ طلبہ کچھ کام کے نکلیں ، یہ ہے ترقی، اگر واقعی طلبہ پر محنت کی جائے تو کیسے نہ بنیں گے۔