مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
تعلیلیں ہیں گھوم پھر کر وہی آتی ہیں ان کو بتادو اس طرح ان کی عبارت صحیح کرادو، اتنا کرکے دیکھو ترقی ہوتی ہے یا نہیں ، مجھے بھی جو کچھ آتا ہے یہ سب اسی طریقہ کی برکت ہے، میرے ایک ساتھی تھے ابھی وہ موجود ہیں ، اس وقت شیخ الحدیث ہیں وہ عبارت تو صحیح پڑھتے تھے، لیکن اگر وجہ پوچھی جاتی تو نہ بتلاپاتے کہ یہ اعراب کیوں پڑھا ہے،مجھ سے کہنے لگے کہ میں نے شرح مائۃ عامل اچھی طرح محنت سے نہیں پڑھی، میں نے کہا کہ اس میں کیا حرج ہے، میں تکرار کرادوں گا، ہدایہ کے سال میں نے ان کو شرح مائۃ عامل کا تکرار کہلایا، اس وقت وہ شیخ الحدیث ہیں ، کئی بار ان سے کہا کہ یہاں تشریف لائیے، آتے نہیں کبھی آئے تو بتلائوں گا اور دکھائوں گا کہ یہ کیسے سیدھے بزرگ اور شریف آدمی ہیں ۔اگر کچھ کرنا اور بننا ہے تو اپنے کو مٹا دو فرمایا حضرت مولانا مظفر صاحبؒ نے اپنے آپ کو بہت چھپایا اور اپنے آپ کو بالکل مٹادیا تھا اسی کا اثر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی مقبولیت اور محبوبیت عطا فرمائی تھی، جب تک آدمی اپنے آپ کو فنا نہیں کرتا اس وقت تک اس میں کمال نہیں پید ا ہوتا، ہرا بھرا کھیت کب لہراتا ہے جب بیج خاک میں ملتا ہے، چمیلی اور گلاب کی خوشبو کب پھیلتی ہے؟ جب پہلے وہ اپنی حقیقت کو فنا کردیتا ہے، خاک میں ملا دیتا ہے، اور آج یہی چیز نہیں ہے، کمال پیدا ہو تو کس طرح، ہر ایک کو اپنی ناک کی فکر ہے، ہر شخص چاہتا ہے کہ ہماری ناک اونچی ہوجائے، ہماری عزت ہو، ہمارا نام ہو، ہماری شہرت ہو، اسی میں جھگڑا کرتے ہیں ہم کو فلاں کتاب پڑھانے کو نہیں ملی، ہم کو یہ کتاب ملنی چاہئے، بخاری شریف پڑھانے کا تو ہمارا حق تھا فلان کو کیوں دے دی گئی، فلاں جونیئر ہے فلاں سینئرہے، یہ سب اسی وقت ہوتا ہے جب ناک اونچی کرنے کی فکر ہوتی ہے، اسی لئے آج علماء سے فیض نہیں ہورہا ہے، اور ان کے وجود سے جو انوار وبرکات ہونا چاہئے وہ نہیں ہورہے ہیں ، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ آج کل کے علماء نے اپنے آپ کو فنا نہیں کیا، اپنے نفس کی اصلاح نہیں کرائی، ایسا شخص جہاں بھی جائے گا، جس مدرسہ میں بھی