مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
عقل کی حقیقت حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے کہ عقل انسان کی ایک طبعی صفت ہے، جو اس کی ماہیت کے ساتھ گڑی ہوئی شئی ہے، اور یہی تعریف محاسبی سے منقول ہے، محاسبی کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ عقل نور ہے۔ دوسرے حضرات نے تعریف کی ہے کہ عقل علوم ضروریہ کی ایک نوع ہے اور وہ ایسا علم ہے جس سے جائز امور کا جواز اور محالات کا محال ہونا منکشف ہوجائے، بعضؔ کے نزدیک عقل جوہر بسیط ہے، بعضؔ کا قول ہے کہ عقل ایک شفاف جسم ہے، ایک اعرابی نے کہا کہ عقل تجربات کا نچوڑ ہے، جو بطور غنیمت ہاتھ لگ جائے۔ تحقیقؔ یہ ہے کہ عقل کا اطلاق مشترک طور پر چار معنوں پر ہوتا ہے۔ (۱) وہ وصف جس کے ذریعہ سے انسان دیگر بہائم سے ممتاز ہوجاتا ہے، اور یہ ایسا وصف ہے جس سے انسان میں علوم نظریہ کے قبول کرنے کی استعداد ہوتی ہے۔ (۲) اس علم پر اطلاق ہوتا ہے جو طبیعت انسانی میں رکھا گیا ہے، جس سے جائز شئی کا جواز اور محال کا محال ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (۳) اس علم پر اطلاق ہوتا ہے جو تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ (۴) اس قوت کے منتہاء پر بھی اطلاق ہوتا ہے جس کو گڑی ہوئی چیز کہا گیا ہے۔ (بیاض صدیقی)عقل کا محل ومقام امام احمدؒ سے مروی ہے کہ اس کا مقام دماغ ہے ، یہی امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے، ایک جماعت کی رائے ہے کہ اس کا مقام دل ہے، یہ حنابلہؒ کا قول ہے، امام شافعیؒ سے بھی یہی قول مروی ہے، وہ حق تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں ’’فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَا- الی قَوْلَہ‘ تَعَالیٰ وَلٰٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ(پ:۱۷؍الحج:۴۶)‘‘یہاں قلب عقل کے معنیٰ میں ہے جس طرح