مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
کہ اچھا میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ کومجھ سے اس طرح کہنا چاہئے ؟میں آپ کو فون کردوں گا،؟ آپ کو تہذیب وسلیقہ نہیں ، انہوں نے آپ کو تہذیب اور ادب سکھلایا اس کی آپ نے یہ قدر کی؟ آپ جانتے نہیں یہ کون ہیں آپ سمجھتے ہوں گے یہ چپراسی ہے یہ مدرس ہیں عالم ہیں مدرسہ کے مفتی ہیں ، آپ نے ان کو پہچانا نہیں ، جائیے اب میں آ پ کو کھانا نہیں کھلانا چاہتا ، میں آپ سے بات نہیں کرتا،اب وہ بہت پریشان ہوئے حضرت سے معافی مانگی حضرت نے معاف کردیا، اور حضرت نے پھر مجھ سے فرمایا جائو ان کو کھانا کھلادو چنانچہ احقر نے ان کوکھانا کھلایا اور وہ رخصت ہوگئے۔مہمانوں کو کھلانے کے لئے دوسروں سے کھانا مانگنا حضرت کے یہاں مدرسہ میں مخصوص مہمان آگئے، ان کے کھانے کے لئے عمدہ کھانا جیسا حضرت کھلانا چاہتے تھے موجود نہ تھا اور اس وقت کوئی انتظام بھی نہ ہوسکتا تھا، حضرت کی عادت یہ ہے کہ ایسے وقت میں بلاتکلف اپنے لوگوں سے مہمانوں کے لئے کھانا مانگ لیا کرتے ہیں ، اس موقع پر بھی احقر نے عرض کیا کہ فلاں استاد کے یہاں گوشت پکا ہوا ہے حضرت نے فرمایا کہ ہر ایک سے تھوڑی یہ تعلق ہے اور ہر ایک سے تھوڑی میں لیتااور مانگتا ہوں ، وہ تو صرف چند گھرہیں اور اپنے ہی گھر ہیں ان سے لے لیتا ہوں اور بعد میں کسی بہانہ سے اس کی تلافی بھی کردیتا ہوں ، پھر ایسے ہی ایک عزیز استاد کے یہاں سے سالن منگایا لیکن بعد میں خود بھی مہمان خانہ میں اتنظام ہوگیا توحضرت نے وہ سالن واپس کروادیا، اور فرمایا کہ پہلے ضرورت تھی اور اب ضرورت نہیں ہے، اور فرمایا کہ حتی الامکان جتنا ہوسکے بچتا رہے کسی کا احسان نہ لادے، مجبوری ہوتو بات دوسری ہے۔ غرضیکہ ضرورت کے وقت مہمان نوازی کے لئے دوسروں سے کھانا لینے میں مضائقہ نہیں البتہ حتیٰ الامکان کسی کا احسان نہ لینا چاہئے۔