مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
کوئی دوسرا آیا، حکومت کا کوئی آدمی آیا وہ آتے ہی ستیا ناس کردے گا، اور ایک ایک چیز پر قبضہ کرکے دینی چیزوں کو نکال باہر کرے گا، میرے سامنے ایک دو نہیں کئی واقعات ہیں ۔مدرسہ اسلامیہ فتح پور کا حال ابھی کل ہی کی تو بات ہے میں مدرسہ اسلامیہ فتحپور کی کمیٹی میں گیا ہوا تھا، وہاں بھی یہی صورت حال پیش آئی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک برابر جھگڑا رہتا ہے، شروع شروع میں مولاناظہور الحسنؒ صاحب نے بڑی نیک نیتی اور اخلاص سے مدرسہ اسلامیہ میں انگریزی تعلیم باقاعدہ شروع کردی، حالانکہ اس مدرسہ میں اصل تعلیم دینی ہی تعلیم تھی انگریزی تو بعد میں مصلحتاً شروع کردی گئی، حکومت سے مانتا بھی مل گئی، ہائی اسکول تک کی منظوری ہوگئی، لیکن رفتہ رفتہ نوبت یہ آگئی کہ پورے اسکول میں انگریزی تعلیم کا غلبہ ہوگیا دینی تعلیم برائے نام رہ گئی، پورے طور پر انہیں کا دخل ہوگیا، مدرسہ کالج بن گیا، مدرسہ کے دینی طلبہ کو ان لوگوں نے دور ایک طرف کونہ میں جگہ دے دی، یہ وہ مدرسہ ہے جس میں مولانا ابرار الحق صاحبؒ پڑھاتے تھے، میں بھی اسی میں پڑھاتا تھا، ہمارے زمانہ تک یہی صورت حال رہی کہ مدرسہ ایک کونہ میں دور کردیا گیا اور باقی عمارت کو کالج بنادیا گیا اوراب تو وہ پورا کالج بن گیا، پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا، حالانکہ واقعۃً وہاں مدرسہ ومسجد سب موجود ہے پوری عمارت وزمین مدرسہ ہی کی ہے، اب اگر ان سے کہا جاتا ہے کہ مدرسہ خالی کردو تو نہیں کرتے ان کو ان کے مطلب کے لئے علیحدہ کافی زمین دی جارہی ہے تب بھی نہیں مانتے، ابھی کل کی بات ہے کہ مسجد کا صحن بڑھانے کے لئے صرف ایک دو بالشت زمین کی ضرورت ہے اس میں جھگڑا ہورہا ہے ، وہ دینے کو تیار نہیں ، کتنے افسوس کی بات ہے رونے کا مقام ہے، سب کچھ مدرسہ کا مدرسہ ہمارا، زمین ہماری اور وہ ہم کو نہیں مل رہی ایسی ترقی اور مانتا کو لے کر ہم کیا کریں ، مولانا ظہور الحسن صاحبؒ نے جو کچھ کیا واقعی بڑی نیک نیتی واخلاص سے خیر خواہی کے جذبہ سے کیا لیکن اس کا انجام کیا ہوا دیکھ لو، یہی خطرہ مجھے یہاں بھی ہورہا ہے منتظم صاحب آج موجود ہیں ان کے بعد ان کی جگہ کوئی دوسرا آیا تو پھر کیا ہوگا۔