مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
کے بعد فرمایا عبارت کا ترجمہ کرو، ترجمہ کے ساتھ ہی حضرت عبارت کی وضاحت اور اس کا مطلب بیان فرماتے جاتے تھے، اسماء موصولہ اور ضمائر کے مراجع پر خاص طور پر توجہ دلاتے تھے، طالب علم کے ترجمہ کرنے میں جو غلطی ہوتی اس کی بھی اصلاح فرماتے جاتے، فرمایا پڑھانے کا یہ انداز اچھا ہے کہ طالب علم خود مطالعہ کرکے آئے اور ترجمہ ومطلب کی تشریح بھی اسی سے کرائی جائے، جہاں غلطی کرے ٹوک دیا جائے، ضرورت ہو تو مزید تشریح کردی جائے، اور کوشش کی جائے کہ کتاب طالب علم خود حل کرے، سبق کی تقریر اسی سے کرائی جائے، اس طرح پڑھانے سے واقعی استعداد بنتی ہے، متقدمین اور اسلاف کے پڑھانے کا یہی انداز تھا، تب ہی تو ان کی استعداد بنتی تھی، علم کے دریا اور پہاڑ ہوتے تھے، اب آج کل اول تو طلبہ مطالعہ ہی کرکے نہیں آتے اور استاد صاحب بھی صرف لمبی چوڑی تقریر کرنا جانتے ہیں ، جو زیادہ اچھا بول لے، لمبی چوڑی تقریر کرلے وہ سب سے اچھا پڑھانے والا سمجھا جاتا ہے، میں تو صاف کہتا ہوں کہ لمبی تقریر کرنے والے بعض دفعہ دراصل اپنے عیب کو چھپاتے ہیں ، عبارت حل نہیں کراتے، ترجمہ بھی صحیح نہیں کراتے، عبارت اور اس کے مطلب میں انطباق نہیں کراتے، بس تقریر کرکے نکل جاتے ہیں لمبی تقریر کرکے سب باتوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔پشاور کے ایک مدرسہ کا نظام اور پڑھانے کا عجیب انداز پشاور میں ایک مدرسہ ہے اس میں سبق پڑھانے کا یہی انداز ہے کہ طلبہ خود محنت سے مطالعہ کرکے آتے ہیں اور طلبہ ہی سبق کی تقریر کرتے ہیں ، استاد سنتا رہتا ہے اگر طالب علم نے غلطی کی تو ہوں ؔ کہہ دیا، اگر طالب علم سمجھ گیاتو ٹھیک ہے ورنہ استاد صحیح تقریر کردیتا ہے، اس سے طلبہ کی استعداد اچھی بنتی ہے، اس مدرسہ کا نظام بھی عجیب وغریب ہے، مدرسہ میں دارالاقامہ نہیں ، طلبہ کے قیام وطعام کا نظم نہیں ، مدرسہ میں طلبہ صرف پڑھنے آتے ہیں اور ادھر ادھراطراف کے گائوں میں رہتے ہیں ، وہاں لوگوں میں دینی جذبہ ہے ، گائوں والے خود کہتے ہیں کہ ہمارے گائوں میں دس لڑکوں کا انتظام رہے گا،