مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
دوسرے لوگ تم کو خیر کی بات بتلا سکتے ہیں ، زبان سے کہہ سکتے ہیں ، ترغیب دے سکتے ہیں ، اس کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں کرنا تو تم کو ہے دوسرے کے کرنے سے تم تھوڑی دین دار بن جائو گے، ڈاکٹر دوا دے سکتا ہے، سمجھا سکتا ہے لیکن دوا تو خود اُسی کو کھانا پڑے گی، مدرسہ بننے کی جگہ ہے اگر بننے کی جگہ تم نہ بنوگے تو کب اور کہاں بنوگے؟ منڈیوں میں دکانوں میں اور کارخانوں میں سامان فروخت ہوتا ہے لوگ وہاں سے خریدکرلاتے ہیں کارخانوں میں طرح طرح کی چیزیں بنتی اور تیار ہوتی ہیں ، ہر چیز کارخانہ میں بنتی ہے اور ہرایک شیء کا کارخانہ الگ الگ ہے، آخر انسانوں کے بننے کا بھی تو کوئی کارخانہ ہونا چاہئے، انسانوں کے بننے اور ان کی اصلاح وتربیت کے کارخانے یہی دینی مدارس ہیں ، اگر یہاں آکر انسان نہ بنیں گے تو پھر کہاں بنیں گے، ہمارا کام تو بتلانا اور سمجھانا ہے اس کے آگے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔طلبہ کو تنبیہ کسی کے پیچھے کوئی کب تک پڑا رہے گا، اور سختی کب تک کرے گا، محض سختی مقصود نہیں ہے، باپ بیٹے کو سزا دیتا ہے مارتا ہے اس لئے تاکہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے اور جو کرنے والے کام ہیں ان کو پابندی سے کرے، اس کے سر پر جو تے اسی لئے لگائے جاتے ہیں کہ ابھی تو مارکھاکر کام کرے گا بعد میں عادت پڑجائے گی تو بغیر سختی کے خود بخود کام کرے گا، لیکن جو عادی ہوگیا ہو سزا پانے کا اور جس کی عادت پڑگئی ہو جو تا کھانے کی کہ جب تک جو تا نہیں کھاتا کام ہی نہیں کرتا، تو ایسے جوتے اور ایسی سختی سے کیا فائدہ، جوتے لگانا اور سختی کرنا مقصودنہیں تھا، سختی کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ کام کرنے کی اس کو عادت پڑجائے اور آئندہ بغیر سختی کے کام کرنے لگے لیکن تم نے سختی کرنے اور جوتے لگانے ہی کو اصل سمجھ لیا ہے کہ جب تک سختی نہ کی جائے اس وقت تک کام ہی نہیں کرتے، آخر سختی کوئی کب تک کرے، کب تک پیچھے پڑا رہے۔ ارے کوئی سختی کرے یا نہ کرے تم کو کوئی دیکھے یا نہ دیکھے تم خود اپنے کو دیکھو مدرسہ میں رہ کر کیا حاصل کررہے ہو تم اپنے والدین کو چھوڑ کر یہاں آئے ہو، آخر کس لئے