مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
مولانا مظفر حسین صاحبؒ کی حکایت فر مایا حضرت مولانا مظفر حسین صاحبؒ فجر سے پہلے سفر کیا کرتے تھے، ساتھ میں ایک گھٹری ہوتی تھی جس میں کپڑے وغیرہ ہوتے تھے اور ایک ڈنڈا ہوتا تھا، جھولے (بیگ) کا تو اس وقت رواج نہ تھا، بالکل سادگی تھی، یہ تو اب جھولے کارواج ہوگیا ہے، اور اٹیچی تو ابھی کی ایجاد ہے، پہلے کہاں یہ سب چیزیں تھیں ، صندوقچہ ہوتا تھا اسی میں سب سامان رکھ لیتے تھے، حضرت مولانا مظفر حسین صاحب ایک مرتبہ اپنے معمول کے مطابق فجر سے پہلے چل دیئے گٹھری ساتھ تھی، کاندھلہ سے نانوتہ پیدل سفرکیا کرتے تھے، راستہ میں ایک گائوں سے گذرے، اتفاق سے اس گائوں میں رات میں چوری ہوگئی تھی، لوگ چور کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے پھر رہے تھے، لوگوں نے حضرت مولانا کو دیکھا گٹھری لئے ہوئے ہیں سیدھے انھیں کو پکڑ لیا، مولانا نے فرمایا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں سے چور نکل کر بھاگے ہیں میں چور نہیں ہوں میں تو مسافر ہوں کاندھلہ سے آکر نانوتہ جارہا ہوں ، لوگوں نے نہ مانا اور کہا چل دیکھ ابھی تجھے بتاتاہوں ، مولانا کو پکڑ کر گھسیٹتے لے جارہے تھے، جھنجھانہ وہاں سے قریب تھا اور وہیں تھا نہ تھا، لوگ سیدھے تھانہ میں پکڑ کر لے گئے، تھانے دار حضرت مولانا کو جانتا تھا اور مولاناکا معتقد تھا، وہ دور سے دیکھ کر گھبرا گیا کہ یہ کیا ماجرہ ہے، جب وہاں پہنچے تو تھانے دار نے ان سب لوگوں کو گرفتار کرنے کا آرڈر دے دیا کہ حضرت مولانا کے ساتھ یہ گستاخی؟ تھانیدار حضرت مولانا کو اچھی طرح پہچانتا تھا، اور دوسرے لوگ نام سے واقف تھے کہ کاندھلہ میں ایک بزرگ مظفر نامی ہیں لیکن شکل سے واقف نہ تھے یہ نہ جانتے تھے کہ یہ ہیں ، اس لئے یہ حرکت کی، اور حضرت مولانا نے بھی یہ نہیں فرمایاکہ میں فلاں ہوں ، بلکہ اپنے آپ کو چھپایا، اور تھانے دار نے جب گرفتار کرنے کا حکم دیا تو حضرت نے فرمایا سن لیجئے تھانے دار صاحب ہماری اور آپ کی دوستی اسی وقت تک ہے جب تک آپ اِن کو کچھ نہ کہیں اور ان سب کو چھوڑنہ دیں ، ورنہ آج سے دوستی ختم،