مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
ایسے شاگردوں ومریدوں کو فیض نہیں ہوسکتا فرمایا: کہ ابھی تو غنیمت ہے کہ طلبہ کو ڈانٹا جاسکتا ہے، تنبیہ کی جاسکتی ہے، ان کو بے حیا وبے شرم کہا جاسکتا ہے،ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ طالب علم کو بے حیاوبے شرم بھی نہیں کہہ سکتے اور بعض مدرسوں میں ایسا زمانہ آبھی گیا ہے کہ محض ڈانٹنے اور بے حیاوبے شرم کہنے کی وجہ سے فساد اور اسٹرائک کی نوبت آگئی ہے، جو شاگرد ایسا ہو کہ استاد اس کو ڈانٹ نہ سکے، تنبیہ نہ کرسکے، ایسے شاگرد کو فیض نہیں پہنچ سکتا، جب تک شاگرد استاد کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح نہ پیش کردے کہ استاد اس کو جس طرح چاہے ڈانٹے، استاد کی طرف سے خیر خواہی کا اعتقاد نہ ہو ایسے شاگرد کو فیض نہیں ہوتا۔ جو ڈاکٹر ایسا ہو کہ مریض کا علاج کرتے ہوئے، آپریشن کرتے ہوئے ڈرتا ہو، نشتر لگاتے ہوئے ڈرتا ہو کہ مریض کہیں ناراض نہ ہوجائے تو ایسے مریض کوفائدہ نہیں ہوسکتا، فائدہ تو اسی مریض کو ہوگا جو اپنے کو بالکل حوالہ کردے کہ آپریشن کرے یا نہ کرے، آپریشن جہاں چاہے کرے، جتنا کاٹنا ہو کاٹے، تب تو مریض کا صحیح علاج ہوگا، اس کو واقعی فائدہ ہوگا ورنہ نہیں ، اسی طرح مرید اور شاگرد کا بھی حال ہے، جب استاد شاگرد سے پیر مرید سے ڈر رہا ہو ایسی صورت میں مرید اور شاگرد کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔آج کل استادوں اور مشائخ سے فیض کیوں نہیں ہوتا فرمایا: اب تو یہ صورت حال ہے کہ استاد شاگرد کا منھ دیکھتا ہے، پیر مرید کا منھ دیکھتا ہے ، استاد ڈرتا ہے کہ کہیں شاگرد ناراض نہ ہوجائے، پیر سوچتا ہے کہ مرید کہیں خفا نہ ہوجائے، شاگرد اور مرید کی رعایت کرنا پڑتی ہے کہ کہیں روٹھ کر چلے نہ جائیں ، بھلا ایسے شاگردوں اور ایسے مریدوں کو کہیں نفع ہوگا؟ ان سے فیض ہوگا؟ پہلے کے لوگ ہوتے تھے کہ سب کچھ برداشت کرتے تھے، استاد شاگرد کو اور پیر مرید کو خواہ کتنا ہی ڈانٹے مارے سب برداشت کرتے تھے، پھر کچھ بن کر نکلتے تھے، اور پورا علاقہ کا علاقہ ان سے فیضیاب ہوتا تھا،