مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
فصل طلبہ اور ناشتہ کااہتمام فرمایا طلبہ میں ناشتہ کرنے کا رواج اور اس کا اہتمام اب بہت ہونے لگا ہے ورنہ میری زمانہ طالب علمی تک طلبہ میں ناشتہ کا رواج نہ تھا اور جو طالب علم اہتمام سے ناشتہ کرتے تھے ان کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا تھا ہاں شام کی بچی ہوئی سوکھی روٹی کسی نے کھالی تو کھالی ورنہ عام طور پر طلبہ ناشتہ کے عادی نہ ہوتے تھے، صرف دو وقت کا کھانا کافی ہوتا تھا۔ آدمی جیسی عادت ڈال لے ویسی عادت پڑجاتی ہے اپنے کو ایسا عادی بنالے تو دو قت کھانا کیوں نہیں کافی ہوسکتا ہے، رمضان شریف میں بارہ بارہ تیرہ تیرہ گھنٹے کھائے پئے بغیر رہ لیتے ہیں اور اب چار گھنٹے نہیں رہا جاتا ، کمزوری آجائے گی دماغ کمزور ہوجائے گا صحت خراب ہوجائے گی، آدمی جیسا مزاج بنالے ویسا ہی مزاج بن جاتا ہے، اس سے پہلے لوگ ناشتہ نہ کرتے تھے ان کے دماغ نہ خراب ہوئے، ہمارے اسلاف تو ایسے تھے کہ ناشتہ نہ کرکے روٹی کے سوکھے ٹکڑے جو گھر سے باندھ کر لے جاتے تھے اور رات میں پانی میں بھگو کر صبح نمک ملاکر اسی کو کھالیتے تھے، وہی ان کا ناشتہ اور دہی ان کا کھانا ہوتا تھا، وہ اس طرح سوکھے ٹکڑے کھا کھا کر رازی غزالی بنے ہیں ان کے دماغ خراب نہ ہوئے اور ایسی ایسی کتابیں لکھ کر چلے گئے۔ ہمارے حضرت ناظم صاحب (حضرت کے پیر ومرشد حضرت مولانا اسعد اللہ صاحبؒ) بھی ناشتہ کے عادی نہ تھے، ۶۵ سال تک تو ناشتہ کیا ہی نہیں ، ۶۵ سال بعد جب کمزوری ہوگئی اور علاج شروع ہوا تو ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق دوا کے طور پر ناشتہ میں چھوٹا بسکٹ چائے دودھ کے ساتھ کھانے لگے ورنہ زندگی بھر تک ناشتہ کا معمول نہیں رہا، حضرت مولانا عبدالرحمن صاحبؒ دورۂ حدیث کی بڑی بڑی کتابیں پڑھاتے تھے اور کبھی ناشتہ نہ کرتے تھے، نہ ان کا دماغ کمزور ہوا نہ صحت خراب ہوئی اور