مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
زندگی بھر پڑھاتے رہے، میں بھی ناشتہ نہیں کرتاہوں اور اب تک نہیں کرتا،اصل بات یہ ہے کہ آدمی جیسی عادت ڈال لے ویسا ہی مزاج بن جاتا ہے۔ راقم عرض کرتا ہے کہ حضرت کے گھر سے دودھ دلیا وغیرہ کا ناشتہ آتاتھا لیکن حضرت کبھی مہمان کو کھلادیتے کبھی مہمان کے انتظار میں رکھ لیتے کبھی کسی خادم یا بیمار طالب علم کو کھلادیتے اور کبھی خود بھی تناول فرمالیتے تھے ،یہ حضرت کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ احقر عرض کرتا ہے کہ ناشتہ نہ کرنے کے سلسلہ میں حضرتؒ کا مذکورہ بالا ارشاد حضرت ؒ کے طبعی مزاج وذوق پر مبنی تھا، ورنہ اس کا دوسرا پہلو یعنی یہ کہ صحت وتندرستی اور تقویت کی نیت سے ناشتہ کرنے اور عمدہ غذائیں استعمال کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ، یہ بھی بزرگوں اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے،حکیم الامت حضرت تھانویؒ تو خاص طور پر فرماتے تھے، کہ صحت کی حفاظت وبقاء کا خاص اہتمام کرو، خوب اچھا کھائو اور خوب دین کا کام کرو، ہمارا جسم سرکاری مشین ہے اس کی حفاظت ضروری ہے، اسلاف اور بزرگوں کے دونوں ذوق رہے ہیں ، بہتر یہ ہے کہ جس کو اللہ نے خوب دیا ہو اور جو کر سکتا ہو وہ اس ذوق پر عمل کرے جس کو حضرت اقدس تھانویؒ نے فرمایا اور اللہ کا شکر کرے، اور جس کو اللہ نے اتنا نہ دیا ہو وہ اس ذوق پر عمل کرے جس کو صاحب ملفوظ نے فرمایا اور صبر کرے، تیسرا ذوق ایک اور بھی ہے کہ جس کو اللہ نے دیا ہو اس کے بعد بھی خود نہ کھاکر ایثار سے کام لے، اور دوسروں پر خرچ کردے یہ ذوق سب سے افضل واعلیٰ ہے، جو بعض صحابہ اور بعض اسلاف صاحب ہدایہ وغیرہ کا رہا ہیجس کو حضرت ؒ نے اختیار کیا ہوا تھا، لیکن اس پر عمل کرنے کی کچھ شرطیں ہیں جس کے بغیر اس ذوق پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ۔(مرتب)کام کرنے والا آدمی عموماً زیادہ موٹا نہیں ہوپاتا ایک مولوی صاحب جو ایک مدرسہ سے متعلق تھے ان کا تذکرہ ہوا کسی نے عرض کیا کہ بہت کمزور ہوگئے ہیں ،(حضرت کوان کے حالات سے فی الجملہ واقفیت تھی) حضرت نے فرمایا یہ علامت ہے اس بات کی کہ کام کررہے ہیں ، کام کرنے والا آدمی متفکر رہنے کی وجہ سے عموماً زیادہ موٹا نہیں ہوپاتا۔