مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
طالب علم تو وہ ہے جو عمل صالح کا پابندہو، اس کے اندر خیر کا جذبہ ہو منکرات پر نکیر ہو، تم لوگوں کا حال یہ ہے کہ منکرات سامنے ہوتے رہتے ہیں لیکن زبان نہیں ہلتی، سامنے سے گذرتے چلے جاتے ہو سونے والا سورہا ہے اس کونماز کے لئے جگا نہیں سکتے، دن بھر میں ہزاروں باتیں ادھر ادھر کی کرتے ہو، گالیاں بکتے ہو لیکن خیر کے دو بول نہیں بول سکتے، کمروں سے نکلتے ہوئے کمروں میں بیٹھے ساتھیوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ چلو نماز کے لئے جماعت کا وقت قریب ہے، چلتے پھرتے کہنے میں آخر کتنی دیر لگتی ہے۔ماحول کا اثر فرمایا: ایک زمانہ میں ہتورا میں دینی ماحول تھا اور دینداری کا بڑا چرچا تھا، لڑکوں اور نوجوانوں میں بھی دینی رجحان غالب تھا، نوجوانوں میں دینی اعتبار سے پارٹی اور جماعت بندی تھی، تنافس اور مقابلہ اس میں ہوتا تھا کہ دینی امور میں کون بازی لے جائے، اذان دینے میں مقابلہ ہوتا تھا ہر جماعت چاہتی تھی کہ ہمارا آدمی اذان دے، دو جماعتیں تھیں ایک جماعت میں ہم اور بٹو بھیّا (حضرت کے ایک عزیز ) تھے، فجر کی اذان دینے میں بازی لگی کہ فجر کی اذان کون دے گا، رات رات بھر جاگتے تھے فجر کی اذان دینے کی وجہ سے، ہم لوگ بھی باری باری سے جاگتے تھے، اتفاق سے ایک مرتبہ اُن لوگو ں نے اذان دے لی، تالی پٹ گئی کہ ہم بازی لے گئے، ہم لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی، میرے ساتھی نے کہا کہ دیکھو تو پہلے کیا وقت ہورہا ہے، معلوم ہوا کہ دوہی بجے اذان دے دی۔ وہی اذان دینے والے جن کی دینداری کا اس زمانہ میں یہ حال تھا اور اس وقت کے بڑے دیندار تھے لیکن آج ان کا یہ حال ہے کہ نماز کی بھی پابندی نہیں ہوتی مارے مارے پھرتے ہیں ، کیسا تغیّر آیا ہے، اصل میں ہوا کا اثر ہوتا ہے، ماحول کا اثر پڑتا ہے، اس زمانہ میں گائوں میں دینی رجحان غالب تھا رمضان کے مہینہ میں دن بھر مسجد بھری رہتی تھی، سب ذکر تلاوت میں لگے رہتے تھے،اور اب تو مسجد خالی پڑی رہتی ہے، ایک دو تلاوت کرتے نظر آتے ہیں بس۔