مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
اللہ کی نافرمانی کا وبال فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا اثر دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا، محرومی یہاں بھی ہوگی اور وہاں بھی محض خوش حالی اور راحت کی زندگی گذارنے سے دھوکہ نہ ہونا چاہئے، جیل خانہ میں جوقید ہوتا ہے کھانا تو اس کو بھی ملتا ہے تو کیا اس کو یہ سمجھنا درست ہوگا کہ ہم سے سب لوگ خوش ہیں اور میں مقر ّب ہوں ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مجرم قیدی، مجرموں کی طرح نافرمان بندہ بھی کھاتا پیتا ہے لیکن محروم رہتا ہے، اللہ کا قرب اس کو نصیب نہیں ہوتا، نافرمانی کی سزا ایک تو یہی ہے کہ طاعت کی رغبت اس کے اندر سے نکل جاتی ہے خدا کا قرب اس کو نصیب نہیں ہوتا، قرب محض قریب ہونے کو نہیں کہتے قرب تو اس کو کہتے ہیں کہ خوشی اور رضامندی کے ساتھ قرب ہو، ورنہ مجرم آدمی بھی بادشاہ کے قریب ہوتا ہے، کیا کوئی شخص مجرم کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ یہ باشادہ کا قریبی اور بڑا مقرّب ومحبوب ہے؟ قرب تو اسی کو کہتے ہیں جو خوشی کے ساتھ ہو۔دینی مدارس میں اللہ کی رحمتیں کب نازل ہوتی ہیں ایک دور وہ تھا جب دینی مدارس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برساکرتی تھیں ، مدارس کے طلبہ ایسے ہوتے تھے کہ فرشتے ان کو دیکھتے تو ان کو بھی رشک آجاتا تھا وہ طالب علموں کے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھایا کرتے تھے، دراصل مدرسہ ایسے ہی لوگوں کے لئے ہوتا تھا فرشتے جن کے پیروں کے نیچے اپنے پر بچھائیں ، ہر وقت ان کے ساتھ رہیں ، وہ چلیں تو فرشتے ان کے آگے آگے چلیں ، کیا تم لوگ طالب علم ہو؟ تم نے تو مدرسوں میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے ناجائز قبضہ کررکھا ہے، جس کے دل میں دین کا ذرہ برابر جذبہ نہ ہو، منکرات پر نکیر کرنے کا مزاج نہ ہو، خیر کی اشاعت کا جذبہ نہ ہو اس کے اندر کوئی خیر نہیں ، اس کی حالت اچھی نہیں اس کو اپنی خیر منا نا چاہئے، اس کو اپنے دل کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے، ایسے لوگ کیا طالب علم کہے جاسکتے ہیں ؟