مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
صرف مہینہ میں طلبہ کے سامنے چار تقریریں کردیا کیجئے گا، اور کافی تنخواہ مقرر کی تھی۔ لیکن حضرت مولاناؒ نے صاف جواب دے دیا اور فرمایا کہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں خود کام کی ضرورت ہے اس لئے پابندی نہ ہوسکے گی، باقی خدمت کے لئے میں حاضر ہوں ، جب موقع ہوا کرے گا، فرصت نکال کر میں خود حاضر ہوجایا کروں گالیکن نہ کرایہ لوں گا نہ سفر خرچ،اپنے ہی کرایہ سے آئوں گا۔ حضرت مولاناؒ کو جو یہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے تو کیوں اس کی کیا وجہ ہے؟ مولانا کے اور بھی تو ساتھی ہوں گے جو ان کے ساتھ پڑھتے ہوں گے وہ کیوں ایسے نہ بنے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کا ادب بہت کرتے تھے، ان سے محبت کرتے، ان کی خدمت میں حاضر ہوتے، ہر کام اپنے بڑوں سے پوچھ کر کرتے تھے، تم لوگ بھی ایسا ہی کیا کرو۔حضرت امام بخاریؒ کا حال فرمایا حضرت امام بخاریؒ کتنے بڑے امام اور محدّث ہیں ، علم کے پہاڑ ہیں ، اپنے اساتذہ سے بھی بڑھے ہوئے ہیں لیکن وہ اتنے بڑے ہونے کے بعد بھی فرماتے ہیں کہ افسوس! اب ہمارے اساتذہ موجود نہیں ہیں ، اگر وہ ہوتے تو تھوڑی دیر ان کے پاس جاکر بیٹھتا۔ واقعی ہے بھی یہی بات، آدمی کا اپنے استاد سے تعلق اور لگائو ہونا چاہئے، ان سے ملتے جلتے رہنا چاہئے، ان کے پاس جاکر بیٹھنا چاہئے، ان ہی سب باتوں سے برکت ہوتی ہے، فیض ہوتا ہے، ترقی ہوتی ہے۔ آج کل طالب علموں کو ہوٹل میں بیٹھنے، چائے اور پان کی دکان میں بیٹھنے میں تواچھا لگتا ہے، سینما حال میں بیٹھنے میں اچھا لگتا ہے لیکن استادوں اور بزرگوں کے پاس جانے اور ان کے پاس بیٹھنے میں اچھا نہیں لگتا، وہاں بیٹھنے کی اس کی طبیعت نہیں چاہتی، یہ طبیعت کا فساد ہی تو ہے، اسی وجہ سے تنزلی ہی تنزلی ہے۔