مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
مرضی اور خواہش کے مطابق عمل کرے تو مریض کبھی صحت یاب نہیں ہوسکتا، مثلاً ڈاکٹر نے جو دوا تجویز کی وہی دوا استعمال کرے پانی پینے کو بتلایا تو پانی پئے الغرض ڈاکٹر کی ہر تجویز کے مطابق عمل کرے تب تو فائدہ ہوگا ورنہ نہیں ۔ اور ڈاکٹر جو کچھ بھی تجویز کرتا ہے اپنے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ اس میں سراسر مریض ہی کا فائدہ ہے مریض ہی کی خیر خواہی ہے اور خیرخواہی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کے مناسب حال جو معاملہ ہو وہی معاملہ کرے، اب اگر مریض یہ سوچنے لگے کہ ہمارے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے ڈاکٹر ہمارے ساتھ بدخواہی کرتا ہے، صبح وشام ہم کو چھیدا جارہا ہے، انجکشن لگ رہے ہیں ، میری کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی ڈاکٹر میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا، خواہ مخواہ ڈاکٹر سے بدگمان ہوجائے ایسے مریض کو اس ڈاکٹر سے کبھی فائدہ نہ ہوگا۔مدرسہ کی مثال اور طلبہ واہل مدرسہ کی ذمہ داری یہی حال مدرسہ کا ہے کہ حالات کے پیش نظر طلبۃ کے واسطے کچھ اصول وقواعد مقرر کئے جاتے ہیں ، یہ سب طلبۃ ہی کے فائدہ کے لئے ہیں ، ان پر عمل کرنے سے فائدہ ہوتا ہے، طالب علم اگر یہ سوچنے لگے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور یہ اساتذہ ہمارے بدخواہ ہیں ہماری مرضی وخواہش کے مطابق عمل نہیں کرتے تو ایسے طالب علم کو کبھی فائدہ نہیں ہوگا، فائدہ تو اسی کو ہوگا جو ہر سختی برداشت کرنے اور کڑوی دوا پینے کو تیار ہو، ڈاکٹر کی سختی اور کڑوی دوا کو خیر خواہی سمجھنا چاہئے۔ اسی طرح اسپتال کیعملہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کس وقت کون سی دوا پلانی ہے کون سا انجکشن کس وقت لگنا ہے، ڈاکٹر نے جو دوا اور انجکشن جتنے بار اور جس وقت تجویز کیا ہو عملہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرکے اس وقت وہ دوا کھانے کو دے تب تو مریض کو فائدہ ہوگا ورنہ نہیں ، اگر عملہ اپنے کام میں سستی کرنے لگے ڈاکٹر نے بتلایا تھا رات میں دوا کھلانے کو، بجائے رات کے صبح کھلا دیا، انجکشن دن میں تین بار لگانا تھا اس میں کوتاہی کی، اگر عملہ اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرے تو مریض کو کبھی فائدہ نہیں ہوسکتا۔