مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
جگہ پابندی سے جاتے تھے، سب شاخوں میں پڑھا کر ظہر تک واپس آجاتے، ظہر بعد قاری فتح محمد صاحب ان سے ہدایہ پڑھتے تھے حالانکہ عمر میں برابر ہی ہوں گے بلکہ بڑے ہوں گے لیکن ان سے پڑھتے تھے، پورا دن پڑھانے میں گذرتا، کبھی ناشتہ آیا تو کرلیا ورنہ یوں ہی رہتے، مجھ کو کئی کتابیں پڑھاتے تھے، ہدایہ وغیرہ جب تک پڑھاتے اس وقت تک میں قرأت سبعہ کا اجراء لکھا کرتا تھا، کنز الدقائق کی تقریر بھی لکھتا تھا، اجراء میں جتنا لکھ لیتا اتنا ہی سبق ہوتا تھا، شام تک میں لکھتا ہی رہتا تھا جو لکھتا عشاء کے بعد اسی کو پڑھتا تھا، اور پڑھنے کے بعد سب طلبہ وہیں سوجاتے، ڈھائی بجے رات پھر سبق شروع ہوجاتا تھا، روز کا یہی معمول تھا، آسان نہیں ، سنادینا تو آسان ہے لیکن عمل کرنا مشکل ہے، میں نے ایسے اساتذہ کو دیکھا ہے اور ایسے اساتذہ سے پڑھا ہے اسی لئے مجھ کو کسی کی محنت بھاتی نہیں ، کوئی کتنی ہی محنت کرے ان جیسی کون کرے گا، اسی وقت سے میری بھی وہی عادت پڑی ہوئی ہے، فجر سے پہلے اٹھنے کا معمول ہے، اُس وقت دن رات میں صرف دو ڈھائی گھنٹہ مشکل سے سونے کو ملتا تھا، اور ادھر اُدھر ٹہلنے کا اور فضول باتوں کا تو وقت ہی نہ ملتا تھا، اسی لئے آج بھی مجھے اِدھر اُدھر کی باتوں سے وحشت ہوتی ہے جی گھبراتا ہے، باتوں میں میرا جی نہیں لگتا۔ احقر راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اسی کا اثر تھا کہ حضرت اقدسؒ بھی فجر سے پہلے ہی اسباق پڑھا دیا کرتے تھے، خصوصاً جب دن میں سفر کرنا ہوتا رات ہی کو طلبہ کو اطلاع کردی جاتی کہ فجر سے قبل سبق ہوگا، عبارت تو حضرت عشاء کے بعد ہی سن لیتے تھے اور سبق فجر سے قبل پڑھا دیا کرتے تھے تاکہ سفر کی وجہ سے طلبہ کے اسباق کا ناغہ نہ ہو، اور بعض کتابیں مستقلاً فجر سے قبل ہی پڑھا یا کرتے تھے،احقر راقم الحروف نے ہدایہ ثالث حضرت اقدسؒ سے فجر سے قبل ہی پڑھی ہے، حضرت اقدسؒ مکان میں سوتے تھے،احقر مدرسہ سے مکان حضرت کو لینے جاتا تھا اور کبھی حضرت خود تشریف لے آتے تھے، جب اسباق نہ ہوتے تو حضرت فجر سے پہلے ڈاک وغیرہ لکھایا کرتے تھے۔