مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
دینداروں اور غریبوں کی قدر اور ان کے جنازہ میں شرکت کی فکر برولی کے رہنے والے ایک صاحب کا انتقال ہوگیا، حضرت دامت برکاتہم کو اس کی اطلاع بعد میں ملی، فرمایا مجھے اس کی اطلاع کل کیوں نہیں دی گئی میں کل ہی ان کے یہاں ہو آتا، کل کے جانے کی بات ہی کچھ اور ہوتی، اتنے اچھے آدمی کے نماز جنازہ میں بھی میری شرکت نہ ہوسکی، محرومی کی بات ہے، گائوں سے بھی کوئی نہیں گیا، صرف ایک آدمی یا دو آدمی گئے، اس وجہ سے کہ بیچارہ غریب تھا نادار تھا، کوئی پیسہ والا ہوتا تو گاڑی کی گاڑی بھر کر جاتیں ، عورتیں برقعہ اوڑھے کھڑی تیار رہتیں ، اپنی اولاد سے فرمایا کہ تم لوگ بھی مالداروں کا منھ دیکھتے ہو، کچھ نہیں ، دین رہا ہی نہیں ، لوگ پیسو ں کو دیکھتے ہیں ، پیسہ کے پیچھے بھاگتے ہیں ، تم لوگوں کو تو جانا چاہئے ، بیچارے کتنے اچھے آدمی تھے بالکل شروع شروع میں انہوں نے میرا ساتھ دیا ہے اور اخیر تک ساتھ دیتے رہے، چالیس سال تک انہوں نے دین کی تعلیم دی ہے جو مل گیاکھالیا، پی لیا، نہیں ملا ایسی ہی پڑے ہیں ، کبھی چٹنی روٹی کھالی، شروع شروع میں بھوانی پور میں مکتب قائم کیا گیا تھا، وہاں پڑھاتے تھے، ماہانہ صرف ڈھائی آنہ تنخواہ تھی تاکہ صابن وغیرہ کا انتظام ہوجایا کرے وہ بھی ان لوگوں سے نہ ہوسکا، یہ ہے باندا کا علاقہ پھر وہ مکتب بھی ٹوٹ گیا۔جدید تہذیب کی چیزوں میں تین چیزیں مجھے بہت پسند ہیں کانپور میں ایک صاحب کے یہاں حضرت تشریف لے گئے کھانے کے وقت جب ہاتھ دھونے کا نمبر آیا تو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ جدید تہذیب میں مجھے دو چیزیں بہت پسند ہیں ، ایک تو فلش پاخانہ دوسرے ہاتھ دھونے کا یہ نل(واش بیسن)دیہات کے قدمچہ دار پاخانوں میں بڑی گندگی ہوتی ہے، پاخانہ جمع ہوتا رہتا ہے، مکھیاں بھنبھنا یا کرتی ہیں ، بدبو ہوتی ہے، اندر جانے کا جی نہیں چاہتا، پاخانہ کرنے کی طبیعت نہیں چاہتی، مجبوری میں آدمی جاتا ہی ہے اور یہ جو نئے نئے پاخانے ایجاد ہوئے ہیں ا ن