مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
جنازہ ادا کی جائے، حضرت مدرسہ کے وسیع میدان میں تشریف لائے، مجمع بہت زائد تھا،لوگوں کا ہجوم تھا، حفاظ وقراء وعلماء سب ہی اس میں تھے، حضرت والانے نماز جنازہ پڑھائی، اس وقت آپ پر رنج وغم کا اتنا اثر تھا کہ نماز جنازہ پڑھانے کے لئے جب آپ نے تکبیر کہی تو اللہ اکبر بھی بآواز بلند پورے طور سے نہ کہہ سکے، بہر حال بھراتی ہوئی آواز سے نماز پڑھائی، نماز کے بعدجنازہ قبرستان لے جایا گیا، حضرت بھی جنازہ کے ساتھ تشریف لے گئے، ایک تو مسلسل سفر کی تھکاوٹ دوسرے بیماری اور ضعف اس قدر غالب تھا کہ چلنا بھی مشکل تھا لیکن کسی طریقہ سے بمشقت قبرستان تشریف لے گئے، اور جنازہ نیچے رکھ دینے کے بعد زمین پر ایک جانب آپ بیٹھ گئے، سکتہ کا عالم تھا، آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ہچکیاں بھی بندھ جاتی تھیں ، طلبہ بھی رنجیدہ خاموش حضرت کے قریب چاروں طرف کھڑے تھے، ہر شخص بدحواس، بدحال اور پریشان رنج وغم اور فکر میں ڈوبا ہوا تھا، کچھ دیر کے بعد حضرت والا واپس تشریف لائے، اور اپنے حجرہ میں آکر فرمایا بہت نیک لڑکا تھا، آج تک کبھی اس کی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی، تم لوگوں نے مجھ کو سفر ہی سے کیوں نہ بلالیا، انشاء اللہ تعالیٰ شہادت کا درجہ پائے گا، پھر حضرت والا تنہا کمرہ میں ہوگئے، اور عشاء کے وقت نماز کے لئے مسجد تشریف لائے، حضرت کا معمول تھا کہ روزانہ عشاء کے بعد طلبہ کو کوئی دینی اصلاحی کتاب پڑھ کر سناتے تھے، یا زبانی کچھ فرمادیا کرتے تھے، طلبہ سب جمع ہوگئے حضرت نے فرمایا جائو آج کچھ نہیں کہوں گا، لیکن طلبہ بیٹھے ہی رہے، کچھ طلبہ جانے لگے، فرمایا اچھا بیٹھو، حضرت والا کرسی پر بیٹھے رنج وغم سے آپ کی آنکھیں سرخ تھیں ، تھکاوٹ سے بدن چور چور تھا، شدت غم کی وجہ سے آواز نہ نکلتی تھی، اسی کرب کے عالم میں حمد وصلوٰۃ کے بعد حضرت نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اِنَّمَا تُوَفُّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ َواُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَاالْحَیوٰۃُ الدُّنْیَا اِلاّ مَتَاعُ الْغُرُوْر۔ (ترجمہ)اور تم کو پورا بدلہ قیامت کے دن ہی ملے گا تو جو شخص دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں