مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
مقصود عمل ہی عمل ہے، اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ، ایسے علم سے کیا فائدہ جس کے بعد عمل نہ ہو، اور تم لوگوں کا یہ عمل ہے کہ چوری کرتے ہو،چوری کی جرأت وہی شخص کرسکتا ہے جس کو خد ا پر بھروسہ نہ ہو، خدا کو منھ دکھانے کا یقین نہ ہو، اگر خدا کا خوف ہو اس کا استحضار ہو تو گناہ ہوہی نہیں سکتا، کیا تھا نیدار کے سامنے بھی کوئی غلطی کرتا ہے، کیا سپاہی کے سامنے بھی کوئی جرم کرتا ہے؟ میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں کیا تم میرے سامنے غلطی کروگے؟ اسی طرح جس کو خدا کے وجود اور اس کو منھ دکھانے اور جواب دینے کا یقین نہ ہو، اس کا ایمان کامل نہ ہو ایسا ہی شخص چوری کرتا ہے، گویا وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو نہیں جانتا ورنہ اگر اس کو یہ اعتقاد واستحضار ہوتا کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے تو ہرگز ایسی حرکت نہ کرتا، اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے’’لَایَزْنِی الزَّانِی حِیْنَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤمِنٌ وَلَایَسْرِقْ السَارِقْ حِیْنَ یَسْرِقْ وَہُوَ مُؤمِنْ۔(مشکوٰۃ شریف)یعنی زنا کار زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، اورچوری کرنا والا جب چوری کرتا ہے اس وقت اس کے اندر ایمان نہیں رہتا، شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کے اندر ایمان نہیں رہتا، یہ سب حدیث شریف میں آیا ہے، اور یہ تو صرف چند معاصی گنائے گئے ہیں ، ورنہ ہر گناہ کا یہی حال ہے کیونکہ گناہ نام ہے خدا کی نافرمانی کا اور نافرمانی ہر گناہ میں ہوتی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کی صفت بصر کا استحضار ہوتو نافرمانی ہوہی نہیں سکتی، اسی وجہ سے حدیث شریف میں آیا ہے کہ بہت سے مومن ایسے ہوتے ہیں کہ اخیر میں وہ ایسے کام کرڈالتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا خاتمہ ایمان پر نہیں بلکہ کفر پر ہوتا ہے، وہ اسی قسم کے اعمال ہیں کہ کرتے کرتے ان کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوتا، دس پیسے اور دس روپئے کے خاطر وہ ایمان کھو بیٹھتا ہے، کیا ایمان کی اتنی بھی قدر نہیں ؟ ارے کتنی ہی قیمتی چیز ہو اور ساری دنیا بھر سے اچھی چیز ہو لیکن جس کی وجہ سے ہم کو ایمان سے ہاتھ دھونا پڑے اس کو لے کرہم کیا کریں گے، انسان ان باتوں کو معمولی سمجھتا ہے حالانکہ اس کی نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ ایمان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔