حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کی ہر تقریر حقائق ومعارف کا ایک سمندر اور ہر تحریر اسرار ونکات کی ایک دنیا اپنے اندر لئے ہوئے تھی۔ان کے خطبات سے نہ صرف برصغیر کا گوشہ گوشہ بلکہ عالم اسلام کے علاوہ افریقہ اور یورپ کی دور دراز بستیاں بھی مستفید ہوئیں ۔ دین اور مادرعلمی دیوبند کی آواز پہنچانے میں زندگی کا اکثر حصہ طویل اسفار کی نذر ہوا۔ اسلام کے اہم اور عصرحاضر کے جدید مسائل پر ایک سوسے زائد تصانیف چھوڑیں ۔ حدیث وتفسیر اورفن حقائق واسرار کی کتابیں اکثر زیر درس بھی رہتیں ۔دعوت وبیان کا انداز حکیمانہ تصنیف وتالیف کی شان فلسفیانہ ہونے کے باوجود شعروسخن میں بھی اعلیٰ ذوق اور ثقہ انداز رکھتے تھے۔ان کی مثنویاں ، قصائد اور فصیح وبلیغ نظمیں ۔اعلیٰ ترین ذوق سخن کی غمازی کرتی ہیں ۔ الغرض وہ اپنے جامع الصفات اکابر واسلاف کے کمالات ومحاسن،نجابت وسعادت، شرافت ووجاہت ،فضل وکمال،اخلاق وشرافت،وقار وتمکنت، فکرو اصابت، تواضع ومتانت کا ایک پیکر جمیل اور دیوبند کی اعلیٰ روایات کا ایک مرقع اور ظاہری لطافت ونظافت اور حسن وپاکیزگی کا ایک مجسمہ تھے۔ان کا ماتم ان سب صفات کا ماتم ہے۔ پوری قوم اور پوری ملت کا ماتم ہے۔دنیائے علم وفضل کا ماتم ہے۔درسگاہوں جامعات اور خانقاہوں کا ماتم ہے اور دارالعلوم حقانیہ کے لیے بھی اس لحاظ سے ایک عظیم ماتم ہے کہ دارالعلوم اور اس کے بانی ِمدظلہ کے ساتھ حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے علائق وروابط اور خصوصی عنایات وتوجہات کی داستان تقریباً نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ع کبھی فرصت میں سن لینا بڑی ہے داستان میری الوداع اے فخر ودین وملت۔الوداع اے خادم حصن ِ اسلام۔الوداع اے شارح علوم قاسمیہ الوداع اے امین گلشن ِ نبویہB الوداع اے میرکارواں ،الوداع تیری تربت پہ ہزاروں رحمتیں ہوں اور تو رب کریم کے بے پناہ لطف وکرم سے مالامال ہو؎ نذرِ اشک بے قرار ازمن پذیر گریہ بے اختیار ازمن پذیر ……v……