حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بہر تقدیر حضرت حکیم الاسلامؒ ایک پاکیزہ شخصیت جامع العلوم اور بہترین کمالات سے متصف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے خاندان میں اور ان کے نائبین کے خاندان میں حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ مرحوم والے تمام اوصاف وکمالات پیدا فرمادیئے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے اس خلا کو پورا فرمادے۔ آمین آج شہر شہر،بستی بستی،قریہ قریہ جو آپ کو یہ دینی علوم کے مدارس ومراکز نظر آتے ہیں ،اور ہر گائوں اور ہر بستی میں جو آپ کو دارالعلوم دیوبند کا فاضل ،اکابراساتذہ کا تلمیذ یا تلمیذ التلمیذ آپ کو نظر آتا ہے یہ سب دارالعلوم دیوبند کا فیض اور حضرت حکیم الاسلامؒؒ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔اور یہ سب دارالعلوم کی برکات ہیں ۔ایشیا بھر میں پھیلے ہوئے مدارس ان کے اساتذہ منتظمین کا تعلق بغیر واسطہ یا بالواسطہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہے۔حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو دیگر اساتذہ دیوبند کی طرح دارالعلوم حقانیہ سے حد سے زیادہ شفقت اور حد سے زیادہ محبت تھی جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو دارالعلوم حقانیہ ضرورتشریف لاتے۔جب ہم سالانہ جلسہ دستار بندی کرتے تب بھی حضرت تشریف لاتے ایک مرتبہ اس سامنے والی گیلری (دارالحدیث) کے سامنے برآمدے کے اوپر بالاخانہ میں قیام فرمایا،اورغالبا ایسے ہی ایک موقعہ پر جب آپ نے دارالعلوم حقانیہ اور اس کے مختلف شعبوں اور طلباء کی قیام گاہوں کے مختلف احاطوں کا معائنہ کیا تو فرمایا: ’’مجھے دارالعلوم حقانیہ،دارالعلوم دیوبند سے جدا نظر نہیں آتا۔بلکہ دارالعلوم حقانیہ نے دارالعلوم دیوبند کو اپنے ضمن میں لے رکھا ہے سارے پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کے نمونے اور نقش قدم پر دارالعلوم حقانیہ گامزن ہے۔اور یہ دیوبند ثانی بن چکا ہے‘‘۔ اور ایک مرتبہ تو یہاں تک فرمایا کہ میں دارالعلوم حقانیہ آکر یوں محسوس کرتا ہوں جیسے دارالعلوم دیوبند آگیا ہوں اور گویا اپنے گھر میں موجود ہوں ‘‘۔ یہ تاثرات دارالعلوم کی کتاب الآراء میں بھی قلم بند فرمائے ہیں ۔بہرحال یہاں آکر حد درجہ خوشی اور محبت کا اظہار فرماتے اور جو نئے مسائل پیش آتے اس میں بھی دارالعلوم حقانیہ کی رائے کو شامل فرمالیتے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت کو دارالعلوم حقانیہ اور خاص کر مجھ ناچیز پر حد درجہ شفقت تھی۔دارالعلوم دیوبند میں میں نے جو زندگی کے لمحات گزارے ہیں خاص کر تدریس کا زمانہ جو تقریبا ساڑھے چار سال ہے اور اس زمانہ میں ہر فن میں تقریبا کوئی ایسی کتاب نہ ہوگی جو میں نے نہ پڑھائی ہو۔دیگر اساتذہ کی شفقت ومحبت کے باوجود چوں کہ اختیارات مہتمم صاحب کے ہوتے ہیں تو حضرت مہتمم صاحب ؒ ہر معاملہ میں ترجیحی سلوک میرے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔اسباق اور تدریس کا مسئلہ بھی یوں تھا۔کہ جب بعض اساتذہ حج کو