حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مضامین شریعت کی عقلی وجوہات بھی بیان کیں اور عقلی استدلال سے بھی کام لیا۔ لیکن نقل کو عقل کی میزان میں تولنے کی سخت مخالفت کی۔ آپ نے عقل کو نقل کی صحّت کا معیار نہیں بنایا، بلکہ اس طریقۂ کار کو اختلاف امت اور گمراہی کا سبب قرار دیا۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’خوارج نے عقائد کا استفادہ نقل صحیح کے بجائے عقل سلیم سے کرنا شروع کر دیا اور وحی خداوندی کو اپنی عقلوں کے تابع بنا لیا حتی کہ متشابہات تک میں بھی عقلی گھوڑے دوڑاے اور ان کے من مانے معنی خود سے متعین کیے، جس سے بلحاظ عقائد ان کے نقش قدم پر بعد کے آنے والوں میں بھی عقل خام کی امامت میں کتنے ہی فرقے ابھر گئے، جو متضاد قسم کے عقائد وافکار کے دلدل میں پھنسے اور پھنس کر رہ گئے۔‘‘ حضرت حکیم الاسلامؒ نے جہاں دیگر بے شمار مسائل میں نقطۂ اعتدال واضح کیا ہے، وہیں ’’تشریح دین‘‘ کے حوالے سے عقل ونقل کے درمیان بھی وصف اعتدال کو ملحوظ رکھا۔ آپ نے اہل حق کا تعارف کراتے ہوے ایک موقع پر تقریر میں فرمایا کہ: اگر آپ عقل سے یہ چاہیں کہ غیب کی چیزیں معلوم کروں تو عقل کی دوڑ صرف محسوسات تک ہے۔ وہ مغیبات تک نہیں پہنچ سکتی، وہ علم کی موجد وایجاد کنندہ نہیں ہے، وہ دریافت کنندہ ہے کہ علم سامنے آئے تو اس سے کچھ اصول نکال لے، کچھ جزئیات سامنے آئیں تو کلیات نکال لے، لیکن خود اصول وجزئیات بنالے یا واقعہ بنا دے، تو عقل موجد نہیں جو واقعات ایجاد کرے پیدا شدہ واقعات میں غور کرسکتی ہے۔‘‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ’’سائنس اور اسلام‘‘ کے موضوع پر ہوئی آ پ کی تقریر، اسلام کی حقیقت، اس کی غرض وغایت، مادّیت پرستی اور عقلیت پسندی جیسے موضوعات پر ایک عظیم دستاویز ہے۔ آپ نے سائنس (کہ جس کی بنیاد مادیت اور عقلیت ہے) اور اسلام کے درمیان نسبت کو اس تقریر کا موضوع بنایااور موضوع کا حق ادا کر دیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ: اس سے سائنس اور اسلام کی باہمی نسبت بھی واضح ہوگئی کہ ان میں وسیلہ ومقصود کی نسبت ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جب تک سائنس کے کارنامے مذہب کے لیے خادم اور ذریعۂ تحصیل نہ بنیں گے، ان کا انجام خوش کن نہ ہوگا اور اسی کے ساتھ بطور ثمرہ یہ مقصود بھی حل ہوگیا کہ جب اسلام مقصود ہے اور سائنس اس کا وسیلہ تو اسلام کی مقصودیت کا تقاضہ یہ ہے کہ ترقی کا میدان اسلام کو بنایا جائے نہ کہ سائنس کو کہ ترقی ہمیشہ مقاصد میں کی جاتی ہے نہ کہ ذرائع وسائل میں ۔ یعنی سائنس کے معمولات اس حد تک اختیار کیے جائیں ، جس حد تک اسلام کو ان کی ضرورت ہے۔‘‘