حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کمالات کے جامع اورفقہ وفتاویٰ میں آپ کی آراء حجت ہیں ، وہیں دوسری طرف تصنیف وتالیف اور تحریر وتقریر کی راہ سے ہدایت خلق، ردّبدعات، دفع شبہات اور ابطال رسوم کے سلسلے میں آپ کی خدمات بے نظیر ہیں ۔ آپ نے اپنے محبین ومعتقدین کے درمیان، اپنے انفاس قدسیہ سے باطنی فیوض کا ایسا سلسلہ جاری فرمایا جوآنے والی نسلوں کے لیے منارہ ٔ نور ہے، آپ نے اسلامی عقائد اوراعمال کو زمانہ کی تہ بہ تہ ظلمات کے گرد وغبار سے پاک وصاف کیا اور یوں آپ وقت کے عظیم مجدد کہلائے۔ حضرت تھانویؒ کا ’’اعتدال فکر ونظر‘‘ بے نظیر ہے، آپ نے ہر ہر مسئلے میں امت کو افراط وتفریط سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ آپ کا سب سے اہم تجدیدی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے مروجہّ تصوّف کی اصلاح فرمائی اور غلو وتقصیر سے بچاتے ہوئے ایک ایسی ’’معتدل طریقت‘‘ کو رواج بخشا کہ جس کے سوتے وہیں سے پھوٹتے ہیں جہاں سے شریعت کے چشمے ابل رہے ہیں ۔ تصوّف کے بے شمار مسائل میں آپ نے میانہ روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’ معتدل حل ‘‘پیش فرمایا کہیں آپ نے تصوف میں رائج تعبیرات کو بدل کر مسئلے کی ایسی قابل قبول صورت پیش فرمائی کہ نام نہاد ’’ توحید پرستوں ‘‘ کے لیے بھی دل سوزی کی کوئی گنجائش نہیں رہی، تو کہیں مسائل تصوف کی ایسی دلنشیں تشریح کی کہ ظاہر پرست بھی اگر انصاف کادامن تھام لیں تو انہیں بدعت کی بو بھی محسوس نہ ہو۔ حضرت تھانویؒ نے مسئلہ وحدۃالوجود کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بنیادی طور پر ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ چوں کہ بہرحال قطعیات میں نہیں ، بلکہ کیفیت ثبوت الوجود للحوادث کے اعتبار سے سب کے نزدیک ظنی ہے، اس لیے بطلان مسئلے کا حکم جزئی یا ضلالِ اصحاب مسئلہ کا حکم قطعی یہ تو یقینا غلو اور معاداۃ اولیاء ہوگا، جس میں ’’ إیذان بحرب اللّٰہ‘‘ کی وعید وارد ہے، اور فریقین کے محتاطین اس مسئلے پر عامل ہیں کہ ’’أبہموا ما آبہم اللّٰہ‘‘ یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے ابہام رکھا اس میں تم بھی ابہام ہی رہنے دو۔‘‘ مسئلہ وحدت الوجود کے بارے میں حضرت حکیم الامت کے نقطۂ اعتدال کو واضح کرتے ہوئے، مولانا عبدالباری ندویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ: حضرت تھانویؒ کا اس مسئلے میں اصل تجدید ی مسلک یہ ہے کہ نہ اس کا جزم وقطعیت کے ساتھ انکار ہو، نہ اثبات ، دونوں کو احتمال کے درجے میں رکھا جائے۔ لیکن انتہا پسندوں نے جہاں ایک طرف اس کا قطعی انکار اور اس کے قائلین کی تکفیر وتضلیل تک میں تأمل نہیں کیا، وہاں دوسری طرف اپنوں اور پرایوں دونوں میں بہتوں نے بڑی غلطی یہ دکھائی کہ اس کو تصوف کاجزو لاینفک سمجھ لیا۔