حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
فرماتے تھے، مگر اسی نفاست پسندی کے ساتھ سخت کوش اور اوقات کے سخت پابند تھے، سفر میں ہر طرح کی صعوبت بآسانی برداشت کرتے تھے، سفر و حضر میں کھانا اگر معمول کے مطابق نہیں ملتا تھا تو کبھی ناگواری کا اظہار نہیں فرماتے تھے، غریب سے غریب کسی انسان کے دستر خوان پر بیٹھ کر انھیں دال بھات کھانے میں بھی کوئی عذرنہ تھا، ان کی خندہ روئی، چہرہ کی مسکراہٹ، لب و لہجہ کی شیرینی، بڑی نرمی اور آہستگی کے ساتھ اصلاحی اقدامات کو آگے بڑھانے کا طریقہ ان کے اِرد گرد کے لوگوں کو متاثر کرتا تھا، اصلاح کے لئے ان کا طریقہ سخت گیری کا نہیں تھا، بلکہ وہ اپنے ماحول میں اپنے اوقات کے انضباط اور اپنے اخلاق کی مضبوطی سے تغیر پیدا فرماتے تھے، غریبوں کی مالی مدد فرماتے تھے، مگر بہت پوشیدہ طور پر اس طرح کہ لینے اور دینے والے ہاتھ کے سوا اور کسی کو اس کا پتہ نہ چلے، امانت کی ذمہ داری خوب سمجھتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں دس روپے بھی کسی دوسرے شخص کو پہونچا نے کے لئے دیتا تھا، تو پوری کوشش فرماتے تھے، کہ جسے امانت دینی ہے اس تک خود پہنچ کر امانت سپرد کردیں ۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی ادائیگی میں ان کا غیر معمولی شغف انتہائی طور پر حیرت انگیز تھا، مغرب کے بعد چند نوافل میں قرآن کریم کے ایک دو سپاروں کی تلاوت ان کا معمول تھا اور اس معمول کو وہ ہوائی جہاز، ریل، ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر بھی پورا فرماتے تھے، مجلس کے اوقات متعین تھے اس سے زائد وقت مجلس میں صرف نہیں فرماتے تھے، تحریر و تصنیف کی دنیا الگ تھی، اور اس دنیا سے بھی ان کی وابستگی دائمی تھی، تقریر کی خوبیاں اور کمالات ان پر نازل ہوئی تھیں ، سوتے سوتے بھی تقریر فرماتے اور نیند کی یہ تقریریں بھی انتہائی مربوط مؤثر اور منطقی لحاظ سے مکمل ہوتی تھیں ، ان کی نیند کی تقریروں کے بہت سے کیسٹ لوگوں کے پاس موجود ہیں ، جنہیں سنکر قطعاً اس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ بیداری کی تقریریں ہیں یا نیند کی تقریریں ، گھنٹہ گھنٹہ بھر کی پوری تقریر بلند آواز اور اپنے مخصوص لہجہ میں سوتے سوتے فرما دیتے تھے، اور خود انھیں اس کا احساس نہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ اپنے اساتذہ، مشائخ اور بزرگوں کے بیحد مداح، ان کی روایات و کمالات کے عاشق، ان کی بارگاہ میں بیحد مؤدّب تھے، اپنے جدّامجد حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند کے علوم پر غائر نظر تھی، جنھیں اپنی سادہ زبان میں اس طرح بیان فرماتے تھے کہ معمولی سی استعداد کا انسان بھی ان سے مستفید ہوتا تھا، علمی لائن پر اپنے اساتذہ محدث عصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکے بیکراں علوم کے قدر دان تھے، حضرت علامہ انور شاہ محدث کشمیریؒ سے تعلق خاطر غیر محدود تھا، جب بھی محدث جلیل کا ذکر چھڑ جاتا تو وہ ان کے ذکر خیر میں مستغرق ہو جاتے ان کے علوم، ان کے درس اور ان کی ذاتی زندگی کی ایک داستان انکی زبان پر آجاتی سیاست و جہاد میں حضرت شیخ الہندؒ کی مردانہ وار سرگرمیوں کے