حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’علمائے دیوبند فروع میں حضرت گنگوہیؒ کے تابع ہیں اور اصول میں حضرت ناناتویؒ کے‘‘ حضرت الامام النانوتویؒ جہاں دارالعلوم دیوبند، اور تحریک مدارس کے بانی ہیں وہیں علمائے دیوبند کے نظریاتی قائد بھی ہیں ۔ آپ ہی کے فکر وفلسفے نے جس کو ’’حکمت قاسمیہ‘‘ سے اچھے اسلوب میں تعبیر نہیں کیا جاسکتا، دیوبندیت کو ایک مکتبۂ فکر بنایا۔ اسی ’’حکمت قاسمیہ‘‘ کا نتیجہ ہے کہ آج دیوبند محض ایک مدرسہ نہیں بلکہ ایک جامع تحریک کا نام ہے جس نے اپنے بانی اور قائد کے نظری وفکری اعتدال سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ ’’حکمت قاسمیہ‘‘ نے فکر ولی اللّٰہی سے جو وصف اعتدال اخذ کیا تھا حضرت الامام نانوتویؒ نے ہمیشہ اس کی آب یاری کی اور اعتدالِ فکر ونظر کے تسلسل کی حسین لڑی میں اپنے نام نامی کا اضافہ کیا ۔ حضرت نانوتویؒ کی تصانیف کو پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی تحریروں میں خالص معروضی انداز اختیار کیاہے، آپ کسی مسئلے میں اپنے جذبات ومحسوسات سے الگ رہ کر خالص عقلی وفکری اور منطقی انداز سے بحث کرتے ہیں اور غیر جانبدارانہ طور سے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں ، اسی وجہ سے نفس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے وہ خالص منطقی اور عقلی مباحث سے استدلال کرنے لگتے ہیں اور حکمت وفلسفہ کی اصطلاحوں سے کام لینے لگتے ہیں ۔ آپ کی وہ تصانیف جن میں آپ نے ہندووں اور عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دیاہے، آپ کی غیرجانبداری پر شاہد عدل ہیں ، مسلمانوں کے مختلف فرقوں : اہل بدعت، اہل حدیث اور اہل تشیع کے خلاف آپ مناظرانہ ومخاصمانہ طرز بحث کے بجائے روادارانہ ومصالحانہ طرز گفتگو اپناتے ہیں ، جن سے ان کے اس رحجان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ملی وحدت اور اجتماعیت کو ترجیح دیتے ہیں اور امت کے شیرازہ کو حتی الامکان منتشر ہونے سے بچاناچاہتے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف وہ ’’ملی اتحاد‘‘ کانام نہاد نعرہ لگا کر اعتقادی مسائل کو نظر انداز نہیں کرتے۔ اس طرح ’’حکمت قاسمیہ‘‘ بے جا مناظرانہ اسلوب سے مبرّا ہونے کی بناپر جہاں افراط سے محفوظ ہے وہیں اعتقادی مسائل کو مصالحانہ انداز میں بیان کرنے کی بنا پر تفریط سے بھی پاک ہے۔ حضرت نانوتویؒ کے سوانح نگار مولانا مناظر ا حسن گیلانی ، امام نانوتویؒ کی کتاب ہدیۃ الشیعۃ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’تصنیفی سلسلے میں تو ، میں یہ کہہ سکتاہوں کہ سیدالامام الکبیر کی کتابوں میں سب سے زیادہ ضخیم کتاب آپ کی وہی ہے جس میں انتہائی دل سوزیوں کے سا تھ شیعوں کی غلط فہمیوں کو مٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ اہل بدعت کے خلاف بھی آپ ’’نقطۂ اعتدال‘‘ سے تجاوز نہیں کرتے بلکہ نہایت معتدل رویہ اپناتے ہوئے ہر نئی بات کو بدعت اور ہر بدعتی کو کافر ومشرک قرار دینے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ عقائد کے تغیر