حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
انہوں نے اپنی رائے بدل دی اور امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒ کے مذہب سے ہٹ کر مذاہب سلف میں سے کسی ایسے مذہب کو اختیار کرلیا، جو ان کی نگاہ میں سب سے زیادہ لائق اور راجح نظرآیا۔اس طرح امام محمد بن حسنؒ نے ’’اعتدال فکر‘‘ کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا جو آگے چل کر ارباب فقہ وفتاویٰ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔ امام دارالہجرۃ مالک بن انسؒ نے اسی فکری اعتدال کو ایک دوسرے انداز سے پیش فرمایا۔ خلیفۂ منصور نے جب امام مالک سے یہ عرض کیا کہ میں آپ کی تصانیف کے متعدد نسخے نقل کراکے ہر ہر شہر میں بھیجنا چاہتاہوں تاکہ سب لوگ آپ ہی کی کتابوں کے مطابق عمل کریں تو امام مالکؒ نے جو جواب دیا وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ’’ ایسا نہ کیجئے ۔ کیوں کہ لوگوں میں سلف کے مختلف اقوال پھیل چکے ہیں اور مختلف اقسام کی احادیث ان تک پہنچ چکی ہیں ۔ اب ان مختلف اقوال واحادیث میں سے ہر گروہ ان چیزوں پر عمل پیرا ہے جو ان کے کانوں میں پہلے پڑگئیں ۔ لہٰذا لوگوں کو آزاد چھوڑ دیجئے اورہر بستی کے مسلمانوں کو اسی مسلک پر عمل کرنے دیجئے جو انھوں نے احادیث رسول اور اقوال صحابہ کی روشنی میں اپنے لیے اختیار کیاہے۔ امام مالکؒ اگراس وقت راہِ اعتدال سے انحراف کرلیتے، تو امت مسلمہ کم ازکم خلافت عباسیہ کے خاتمے تک اعتدال پر قائم نہ رہتی اور نظریۂ تقلید کو لے کر افراط کا شکار ہوجاتی ، احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ اور صحابہ کرامؓ کے بے شمار فتاویٰ معطل ہو کر رہ جاتے اور یوں اس امت کی فکری ترقی فوراً زوال میں بدل جاتی۔ امام شافعیؒ بھی اس بزم فقہ واجتہاد میں تشریف لائے اور اسی اعتدال کے ساتھ جلوہ گر ہوئے جو انھیں اپنے پیش رئووں سے وراثت میں ملا تھا۔ انھوں نے متقدمین کے فکر واستنباط کا گہرائی سے جائزہ لیا اور ’’اعتدال‘‘ کی عمارت مزید مضبوط کرنے کی غرض سے طریقۂ فکر ونظر میں از سر نو غور کیا۔ انھوں نے مذہب کی اساس جن امور پر رکھی ہے، ان کا تذکرہ امام موصوف نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ الأم‘‘ کے ابتدائی اور اق میں فرمایا ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ : (۱) یہ لوگ مرسل اور منقطع احادیث کو بھی لے لیتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے اقوال میں لغزشیں راہ پالتیں ہیں ۔ کیوں کہ جب حدیث کے تمام طریقوں کو جمع کیا جاتاہے اور محدثانہ چھان بین کی جاتی ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ کتنی ہی مرسل حدیثیں ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں اور کتنی ہی ایسی ہیں جو مسند اور مرفوع احادیث کے خلاف پڑتی ہیں ، اس لیے ہم مرسل روایات کو اس وقت تک قبول نہ کریں گے جب تک ان میں چند خاص شرطیں نہ پائی جائیں ۔ (ان شرائط کی تفصیل کتب اصول میں موجودہے۔)