حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
۵۰۲۶۲؍ سے بڑھ کر ایک کروڑ سے اوپر پہنچ گیا تھا۔ دارالعلوم کا عملہ ۴۵؍سے بڑھ کر دو سو کے قریب ہوگیا۔ اساتذہ اور طلبہ میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ تعمیرات کا سلسلہ بھی برابر جاری۔ دارالتفسیر، دارالافتاء، دارالقرآن، جامعہ طبیہ جدید، دو منزلہ دارالاقامہ، مہمان خانہ، کتب خانہ کا جدید ہال اور باب الظاہر وغیرہ کی تعمیرعمل میں آئی۔ دارالعلوم کے علاوہ آپ کا تعلق جمعیۃ علماء ہند سے بھی رہا۔ اور ان کی متعدد صوبائی اور ضلعی کانفرنسوں کی صدارت فرمائی۔ اس وقت آپ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے چیرمین بھی تھے۔ خطابت کے ساتھ ساتھ تحریر و تصنیف کے میدان میں بھی آپ گامزن رہے۔ التشبہ فی الاسلام، مشاہیر امت، کلمات طیبات، سائنس اور اسلام اور مسیحی اقوام،مسئلہ زبان اور ہندوستان، دین و سیاست، اسلامی آزادی کا مکمل پروگرام، اسباب عروج و زوال اقوام، اصول دعوت اسلام، اسلامی مساوات، تفسیر سورۂ فیل، فطری حکومت، الاجتہاد و التقلید آپ کی قابل ذکر تصانیف ہیں ۔ اس صدی میں ہندوستان میں جن لوگوں نے خطابت میں نام پیدا کیا حکیم الاسلامؒ ان میں سے ایک تھے ان کی تقاریر نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون دنیا میں بھی مسلمانوں کی نئی نسل کو بے حد متاثر کیا۔ اور بڑا نام پیدا کیا۔ ان کی تقریروں میں چٹکلے اور واعظانہ پھبتیاں نہیں ہوتی تھیں علم کا دریا موجیں بھرتا نظر آتا تھا۔ ان کی زبان و دہن علم کا ایک جھرنا معلوم ہوتی تھی، جس سے ہزاروں کا مجمع ہو یا لاکھوں کا، سیراب و سرشار ہوتا تھا۔ ہر بار تقریر میں ایک نیا کیف، ایک نیا ولولہ اور ایک نیا پیغام ہوتا تھا۔ آج کی مسلمان نسل جس کے ارد گرد دہریت کے طوفان اٹھ رہے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ آج اس کو مخاطب کرنے والا اور اسلام سمجھانے والا کوئی دور دورتک نظر نہیں آتا۔ افسوس کہ حکیم الاسلامؒ کو زندگی کے آخری ایام میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے المیہ سے دو چار ہونا پڑا۔ یہ بزرگوں کا اختلاف تھا۔ اس میں ہمارا کچھ نہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اور پھر میں تو خود بھی اس میں فریق رہا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائیں اور حکیم الاسلامؒ کی قبر پر تاقیامت رحمتوں کی بارش فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطا فرمائے۔ ……v……