حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اور مخفی حرکات و سکنات سے درگزر کرنے والے، ناگزیر رنجشوں پر حکمت عملی سے قابو پانے والے،غیر دانشمندادنہ اقدامات اور انتہائی ناعاقبت اندیشانہ فکر سے دور رہنے کی تلقین فرمانے والے، مسلمانوں کے اجتماعی وجود کو نئی سمت دینے والے، صرف قرآن و حدیث پر مبنی اسلام کو رواج دینے والے کون؟ جنہیں مخلوق اور عوام الناس حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کے نام نامی اور اسم گرامی سے پکارتی آرہی ہے ؎ زبان پہ بارِ خدا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لئے عارف باللہ حکیم الاسلام حضرت اقدس، عزت مآب، مولانا محمد طیب صاحب قدس سرہٗ سابق مہتمم دارالعلوم کا اسم گرامی سامنے آتے ہی دل و دماغ پر کمالِ اخلاق، حکمت و معرفت، فہم و فراست، لطافت و نفاست اور پاکیزگی و تقدس کا ایک جامع نقشہ آنکھوں میں تیرنے لگتا ہے۔بلاشبہ آپ کی ذات اقدس مسلک دیوبند کی شارح، مکتب قاسمیہ کی ترجمان اور سلف صالحین کا نقش جمیل تھی آپ نے ساٹھ سال سے بھی زیادہ مدت تک عالم اسلام کی شہرت یافتہ یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کو اپنی خدمات جلیلہ سے چار چاند لگائے۔ مشرق سے مغرب تک سفر کی صعوبتیں اٹھائیں ، اہتمام کے عروج و زوال کی کہانی تحریر کی۔ تحریر و تقریر سے نوع انسانی کو بلا لحاظ مذہب و ملت فائدہ پہنچایا۔ اہم تحقیقی مسائل کو چٹکیوں میں حل کر دیتے تھے۔ سمجھانے کا اسلوب عام فہم تھا۔ طالب علموں میں ان کی صلاحیت کے بموجب، عورتوں میں ان کی گھریلو زندگی اور محاوروں کے سہارے، سائنس دانوں میں ان کی علمیت کے مطابق اسلام کے اعلیٰ مقاصد اور اس کی بیش قیمت تعلیم کو ان کے ذہنوں میں اتارنے میں کمال حاصل تھا، آپ کی تقریر دل کش اور دل چسپ ہوتی تھی کہ سامعین بڑے شوق سے سنتے۔ خورد نوازی، مروت، شفقت کی آپ کی سرشت میں حد دجہ داخل تھی۔ محاسب آپ سرزنش حاکمانہ طمطراقیت آپ کی ذات میں مطلق بھی شامل نہ تھی۔ انتقام، ایذا رسانی، دل آزاری، طنز و تنقید سے آپ قطعی دور تھے۔ آپ مسلمانوں کو حقیقی آزادی اور اسلامی طرز حیات سے متصف دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ اس بات کے حامی تھے کہ مسلمانوں کے لئے ایسی حکمت عملی تیار کی جائے جس کے ذریعہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں اجتماعی وجود کی شناخت برقرار رکھ سکیں اور بدی کے عالمی محور یعنی امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے احکامات کی پابندی اور ان کی روش پر چلنے کے لئے مجبور نہ ہوں ۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ مسلمانوں کے درمیان مصنوعی دیواروں کو کھڑا کرنے کے خلاف تھے۔ وہ حجاز، یمن، وسط ایشیا کے مسلمانوں کو ہندوستانی مسلمانوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے