حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے اہتمام کی مدت دارالعلوم کے تمام سابق مہتمموں کی مدت اہتمام سے زیادہ ہے، اسی طرح مدرسہ میں جو توسیع و ترقی آپ کے عہد میں ہوئی، کسی کے عہد میں نہیں ، آپ کی فیض رسانی کا دائرہ برصغیر تک محدود نہیں رہا بلکہ ایشیا اور افریقہ کے دور دراز خطوں کے علاوہ امریکہ اور یورپ پر محیط ہوگیا، اس لئے آپ کا حادثہ ٔ وفات عالم اسلام کا وہ عظیم دوسرا المیہ ہے جو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کی وفات کے بعد پیش آیا ہے، آپ کے سانحہ ٔ ارتحال سے دارالعلوم دیوبند کا ایک دَور اور ایک عہد ختم ہوگیا۔ مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ اور حضرت حکیم الاسلامؒ دونوں ہم جماعت اور ہم درس ہونے کے علاوہ وہ بھی صاحبزادہ اور یہ بھی صاحبزادہ، اس لئے ہم مرتبہ ہم مقام بھی تھے۔ اس لئے دونوں میں بڑی دوستی اور بڑی بے تکلفی تھی، لیکن میں ایک جونیر طالب علم تھا، اس لئے حضرت مرحوم سے کوئی سابقہ نہ تھا۔ البتہ ان کے برادر خورد مولوی محمد طاہر مرحوم بڑے ہنسوڑ، خوش مزاج و یارباش انسان تھے، ان سے بڑی دوستی اور بے تکلفی تھی، میں ان کے گھر جاتا اور وہ میرے کمرہ میں آتے، اور ہم دونوں گھنٹوں گپ شپ کرتے رہتے تھے، البتہ ۱۹۶۲ء میں مجلس شوریٰ کا ممبر منتخب ہوا تو اب حضرت مرحوم سے بھی ذاتی تعلقات پیدا ہوگئے جو محض رسمی اور واجبی نہ تھے بلکہ حقیقی اور قلبی و روحانی تھے، اب ان سے صرف ادب و احترام کا تعلق نہ تھا بلکہ محبت اور تعلق خاطر کا بھی تھا، محبت کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی، بلکہ متعدی ہوتی ہے، چنانچہ ادھر بھی ایسا ہی تھا، اس کا پائیدار ثبوت یہ ہے کہ حضرتؒ کا ذوق شعر و ادب بھی بڑا پاکیزہ تھا اور خود بھی قادر الکلام شاعر تھے، ایک مرتبہ انھوں نے اپنے ایک قصیدہ کے ایسے چند اشعار خود اپنے قلم سے لکھ کر مجھ کو عنایت فرمائے جن میں ازراہ شفقت بزرگانہ اس ہیچ میرز کی نسبت ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا تھا جن کو پڑھ کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا، میں نے یہ تحریر تبرک سمجھ کر حفاظت سے رکھ لی، ایک مرتبہ خیال ہوا کہ تحدیث نعمت کے طور پر ان اشعار کو برہان میں چھاپ دوں لیکن خودستائی کے ڈر سے، جہاں میں برہان کی ڈاک سے اس قسم کے روزانہ دو تین خط نہیں چھاپتا، ان اشعار کوبھی صرف اپنے تک محدود رکھا، آج یہ شفقت و محبت اور التفات خاص و مراعات یاد آتے ہیں تو دل بے چین ہوجاتا اور تڑپ اٹھتا ہے اور یہ حادثہ ملی و قومی ہی نہیں بلکہ ذاتی اور شخصی بھی ہو جاتا ہے، مگر بہر حال بقول غالبؔ: صبر کرتے ہی بنے گی غالبؔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز ……v……