حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نے صحابہ کرام کا جینا دوبھر کردیا تو ایک صحابی رسول آپؐ کے پاس شکایت لے کر آئے۔ ’’اے اللہ کے رسولؐ! آ پؐ ہمارے لئے خدا سے مدد کیوں نہیں طلب کرتے اور ظلم کے خاتمہ کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے؟ آپؐ یہ سن کر غصہ ہوگئے اور فرمایا: تم سے پہلے ایسے لوگ گذرے ہیں کہ ان میں بعض کے لئے گڑھا کھودا جاتا تھا اور اس کے جسم کو چیرا جاتا یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے کردئیے جاتے بعض کے جسم میں لوہے کے کنگھے چبھوئے جاتے جو گوشت سے گذر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتا۔ مگر وہ خدا کا بندہ حق سے نہ پھرتا۔ واللہ یہ دین غالب ہو کر رہے گا۔ آزمائش داعیان دین کو مہمیز کرنے اور انہیں قوت بہم پہنچانے کے لئے لازمی ذریعہ ہیں ۔ وہ دین جو عالم انسانی میں ہمہ گیر انقلاب کی دعوت دیتا ہے اور پوری انسانی زندگی کو نئی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے اس دین کو علمبرداروں کے لئے ان آزمائشی مراحل سے گذرنا امر فطرت بھی ہے۔ کوئی بھی باطل نظام خواہ وہ سیکولر ہو یا غیر سیکولر اپنی ماتحتی میں رہنے والے مسلمانوں کو صرف اسی حد تک جینے کا حق دے سکتا ہے جب تک وہ خود ان کے وجود کے لئے خطرہ نہ بنیں ۔لیکن اگر حق نظام کے علمبردار غیر حق نظام کے لئے خطرہ نہیں ہیں تو انہیں اپنا الگ وجود رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ لہٰذا باطل اگر آج ہماری دعوت پر تلملا نہیں رہا ہے اور ہمیں دعوت دین کی کھلی اجازت دے رہا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے بطلان کے خلاف دعوت نہیں دے رہے ہیں جس سے اس کے عقائد و نظریات پر چوٹ پڑے اور باطل اپنے وجود کے لئے دعوت حق کو خطرناک سمجھ سکے۔ لہٰذا ایسی دعوت میں کھوٹ ہے۔ انبیائی انداز نہیں اختیار کر رہے ہیں بایں وجہ آج ہماری دعوت غیرموثر ہو رہی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی معمولی نام کے لئے بھی بڑی جاں فشانی اور بلا کشی کرنا پڑتی ہے تو کیا دین کی دعوت جیسا عظیم کام بغیر آزمائش و مصائب کو انگیز کئے پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ انبیاء کرام اللہ کے سب سے زیادہ برگزیدہ بندے تھے۔ دین کی راہ میں ان کی سب سے زیادہ آزمائش ہوئی اور نبی آخر محمدؐ کی دعوت دین کی راہ میں سب سے زیادہ آزمائش ہوئی۔ لہٰذا ان کے نقش قدم پر چلنے والے داعیان کرام کو بھی آزمائشی مراحل سے گذرنا پڑے گا۔ اگر معاملہ خلاف واقعہ ہے تو وہ دین کی صحیح دعوت نہیں یا کم از کم انبیائی طریقہ کار اور قرآن کا مطلوبہ انداز نہیں ۔ ’’مانیتا پراپت دعوت‘‘ جمہوری اور پرامن طریقۂ دعوت تعلیم کے فقدان کا شور، حقوق انسانی کی دعوت، اسلامی تشخص کے تحفظ کے نام پر غیراللہ کی حاکمیت کی دعوت یہ تمام تر دعوت اور طریقۂ دعوت فتنوں اور گمراہیوں کے گرداب میں ہے اور شیطنت کا شکار ہو کر انبیائی نہج سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ نیز اللہ کی اس سنت متواترہ سے بچ نکلنے کی ناکام کوشش ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کی آزمائش ضرور کرتا ہے۔