حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلامؒ بالکل واضح طور پر فرماتے ہیں کہ دعوت کا مطلوب سبیل رب یعنی توحید و شریعت اسلامی ہے۔ یہ وہ واضح مطلب ہے جو ہر دور میں ایک رہی ہے۔ تمام انبیاء کرام کی دعوت کا ایک ہی موضوع رہا ہے۔ وہ یہ کہ انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار خدائے واحد سے آشنا کرایا جائے۔ انہیں عرفانِ الٰہی دے کر رب الٰہی کی غلامی میں داخل کیا جائے اور دنیا میں انسانوں کی حاکمیت و ربوبیت کی بساط لپیٹ دی جائے۔ تاریخ انسانی کی ہر دور میں انسانی حقیقی رب کی معرفت میں غلطاں و پیچاں رہا ہے۔ اللہ کے ساتھ الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتا رہا ہے۔ کبھی عقیدہ و عبادت میں کبھی حاکمیت غیراللہ کی اتباع کی صورت میں یہ دونوں صورتیں انسانوں کو اللہ کے دین سے دور لے جانے والی تھیں ۔ چنانچہ انسانیت کی رہنمائی کے لئے ہر دور میں انبیاء کرام آتے رہے ہیں اور انسانوں کو عرفانِ الٰہی کے ذریعہ حاکمیت الٰہی میں داخل کرتے رہے ہیں ۔ اسی طرح ہر نبی نے ایک ہی دعوت دی ہے کہ بالکلیہ اللہ کی بندگی کرو، طاغوت سے اجتناب کرو، انبیاء کرام کی دعوت کی یکسانیت کے لئے ملاحظہ ہو۔ (سورہ ہود، سورہ شعراء، ۱۰۵-۱۱۰، شعراء-۱۴۱، بقرہ ۲۵۶، نحل، اعراف، طہٰ-۵۰ مریم-۳۶) دعوت دین جاہلی عصبیتوں اور حدبندیوں سے آزاد ہے۔ دین اسلام کسی شخصیت، جگہ، قبیلہ سے موسوم و منسوب نہیں ہے اور نہ ہی کسی عصبیت جاہلیہ کی مظہر ہے۔لہٰذا دوسرے مذاہب کی طرح دین اسلام میں شخصیت پرستی، مقام و قبیلہ پر مفاخرت وغیرہ کا کوئی تصور پایا نہیں جاتا بلکہ اسلام دوسرے مذاہب کے برعکس اللہ واحد کی بندگی اور ہر طرح کے خیر کا نام ہے۔ اس طرح دین اسلام و طنیت، قومیت، شخصیت اور کمیونزم و رہبانیت جیسی عصبیتوں کی حد بندیوں سے بالکل آزاد و مبرا ہے۔ لہٰذا دعوت دین کا مطلب ان تمام حدبندیوں کو توڑنا ان عصبیتوں کا قطع کرنا ہے اور اللہ کے اس پسندیدہ دین کو پوری دنیا پر غالب کردینا ہے۔ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ اس حقیقت کو اجمالاً تحریر کرتے ہیں : ’’بہرحال یہ رہبانیت خیز اور گوشہ گیر مذاہب عموماً یا وطنی حدبندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں یا قومی بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں حتی کہ ان کے اسماء ہی سے یہ وطنی، قومی اور شخصیتوں کی حدبندیاں اور تنگیاں نمایاں ہیں ۔ ہندو مذہب ملک کی طرف، یہودی مذہب قوم کی طرف اور بدھ مذہب یا عیسائیت شخصیتوں کی طرف منسوب ہے اس لئے ان کے اسماء ہی ان کی عمومیت اور ہمہ گیری سے انکاری ہیں ۔ اسی حقیقت کو نبی کریمؐ نے اس حکیمانہ اور بلیغ انداز تعبیر سے ظاہر فرمایا ہے کہ: ’’کان النبی یبعث الیٰ قومہٖ خاصۃً و بعثت الیٰ الناس کافۃ‘‘